فوجی اراضی پر تجارتی سرگرمیاں

133

عدالت عظمیٰ نے ایک مرتبہ پھر کراچی میں فوجی اراضی سے تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم دیا ہے ۔ تجاوزات کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کا کراچی رجسٹری میں اہم اجلاس ہوا جس میں جسٹس گلزار احمد نے ملٹری کو دفاعی مقاصد کے لیے دی گئی زمینوں پر سے تجارتی سرگرمیاں فوری طور پر ختم کرنے کا حکم دیا ہے ۔ جسٹس گلزار احمد ہی کی سربراہی میں 4 دسمبر کو کراچی رجسٹری میں انسداد تجاوزات کے بارے میں ہونے والے اجلاس میں بھی ایسا ہی حکم جاری کیا گیا تھا جسے متعلقہ اداروں نے کہیں فائلوں میں دبا دیا اور اس پر عمل نہیں کیا گیا ۔ پاکستان میں یہ معمول بنتا جارہا ہے کہ اگر عدالتی فیصلے طاقتور کے خلاف ہوں تو ان پر یا عملدرآمد ہی نہیں ہوتا ہے اور ہوتا بھی ہے تو اس طرح کہ عدالتی فیصلے کی اصل روح ہی مسخ ہوجاتی ہے ۔ کچھ ایسا ہی فوجی اراضی کے تجارتی استعمال کا معاملہ ہے ۔ فوجی اراضی پر سنیما ، غیر ملکی فاسٹ فوڈ ریسٹورینٹس کے آؤٹ لیٹ ، شادی ہال اور مال بنادیے گئے ہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ ملٹری کو زمین انتہائی سستے داموں فراہم کی جاتی ہے اور اس پر دیگر ٹیکس بھی معاف ہوتے ہیں ۔ ایسے میں ان زمینوں کو ان کے اصل مقاصد کے لیے استعمال نہ کرنا افسوسناک ہے ۔ کراچی میں ہی یونیورسٹی روڈ پر واقع پرانی سبزی منڈی کی وسیع و عریض اراضی کور فائیو کو اس لیے دی گئی تھی کہ یہاں پر پارک بنے گا اور عوام کو تفریحی سہولیا ت میسر آئیں گی۔ فوج کو یہ اراضی دینے کا مقصد اس اراضی کا تجارتی استعمال بھی روکنا تھا ۔ مگر ہوا یہ کہ اس اراضی پر پہلی فرصت میں شادی ہال اور ریسٹورنٹ قائم کردیے گئے ۔ عدالت کے بار بار کے فیصلوں کے باوجودشادی ہال میں روز تقریبات جاری ہیں ۔ بقیہ حصے میں پارک قائم کیا گیا جسے بعد میں ایک نجی پارٹی کے ساتھ مل کر امیوزمنٹ پارک میں غیر قانونی طور پر تبدیل کردیا گیا ۔ اس امیوزمنٹ پارک میں جھولے کے حادثے کے بعد سے پارک بند پڑا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جھولوں کے استعمال پر پابندی عائد رہتی مگر پارک تو عوام کے لیے کھلا رہتا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پارک تو عوام کے لیے بند ہے مگر شادی و دیگر تقریبات کے لیے کھلا ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے فوجی اراضی کے تجارتی استعمال کا نوٹس لیا ہے تو بہتر ہے کہ اس پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے ۔ جب تک عدالتی فیصلوں پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد نہیں ہوگا اس وقت تک ملک میں انارکی ہی پھیلی رہے گی ۔ ادارو ں کو اپنے دائرے میں رہنا چاہیے یہ جملہ بہت اچھا لگتا ہے لیکن اس کی پابندی کوئی نہیں کرتا۔ عدالتی حکم پر زیر نظر تبصرے کا یہ مقصد نہیں کہ پاک فوج پر کوئی تنقید کی جائے۔ اس کو اس طرح سمجھنا ہوگا کہ اگر کوئی فرد ،گروہ یا تنظیم محض منظم ہونے یا تھوڑی بہت یا بہت زیادہ طاقت حاصل ہونے کے بعد فوج کی ذمے داریاں ادا کرنے لگ جائے۔ جیسا کہ پاک فوج ایسے گروہوں کے خلاف برسر پیکار بھی ہے۔ انہیں عسکری گروہ کہاجاتا ہے۔ ایسے تمام عسکری گروہوں کا فوج ہی قلع قمع کررہی ہے۔ اس بات سے فوج کے ذمے داروں کو اندازہ ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی اور گروہ کو فوجی مقاصد کے حصول میں سرگرداں نہیں دیکھ سکتے تو سویلین کے حق، تجارتی مقاصد کے حصول میں فوجی مقاصد کے لیے حاصل کی گئی اراضی کیونکر استعمال کی جاسکتی ہے۔ پاکستانی قوم دفاع پاکستان کے لیے قربانیاں دیتی ہے اور مزید قربانیاں دینے کو تیار ہے لیکن اس کا راستہ پارلیمنٹ اور حکومت کے ذریعے مزید وسائل کی فراہمی ہے۔ اگر اس اراضی کو فوجی ضروریات کے لیے وسائل مہیا کرنے کی خاطر تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہاہے تو بھی فوجی ضروریات کی اہمیت کے پیش نظر تجارتی استعمال کے بجائے حکومت کو متوجہ کیا جائے۔ لیکن ایسا ہے نہیں فوج ،پولیس یا سیکورٹی ایجنسیوں کو تجارتی معاملات میں دخیل کرنے کے یہ نقصانات بھی ہیں کہ ان اداروں کے افسران اور اہلکاروں کو روپے پیسے میں زیادہ دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے میں سیکورٹی افسران کو رشوت دے کر غلط کام کرانا بھی آسان ہوجاتا ہے۔ بڑی بڑی وارداتوں میں اندر کا آدمی ملوث نکلتا ہی ہے۔ لہٰذا دفاعی ادارے بھی خود کو تجارتی سرگرمیوں سے دور رکھیں۔