آخری قسط
۔1400برس قبل29ہجری، تیسرے خلیفہ راشد سیدنا عثمان بن عفانؓ کے عہد میں اسلام کی اشاعت اور فروغ کے لیے مسلمانوں کا ایک وفد روانہ کیا گیا۔ اس وفد کی منزل چین تھی۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔ مسلمان تجارت کی غرض سے بھی چین کا سفر کرتے رہے۔ یوں چین کے بعض علاقوں میں ابتدائے اسلام ہی سے اسلام کی قبولیت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مشرقی ترکستان یعنی سنکیانگ کو اموی خلیفہ ولید بن مالک کے دور میں قتیبہ بن مسلم الباہلی نے 93-94ھ میں فتح کیا تھا۔ ترکستان کے معنی ترکوں کی سرزمین کے ہیں۔
مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے چین کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک سنکیانگ یا شنجیانگ جس کی سرحدیں منگولیا، روس، قازقستان، کرغستان، تاجکستان، افغانستان، ہندوستان اور پاکستان سے ملتی ہیں۔ عرصہ دراز تک مسلمانوں نے اس علاقے پر حکومت کی ہے۔ اس صوبے کا دارالحکومت ارومچی ہے۔ کاشغر سب سے بڑا شہر ہے۔ دوسرے وہ مسلمان ہیں جو چین کے مختلف علاقوں میں رہتے ہیں۔ چین میں تقریباً دس کروڑ مسلمان ہیں لیکن چین کی حکومت یہ تعداد تین کروڑ بتاتی ہے۔ اگر غیر سرکاری اعداد وشمار کو درست تسلیم کرلیا جائے تو چین میں مسلمانوں کی آبادی مصر سے بھی زیادہ ہے جو تمام عرب ممالک میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے۔
چین میں کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد چین نے سنکیانگ میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر پا بندی عائد کردی، دینی اداروں کو بند کردیا، مساجد فوج کی رہائش گاہوں میں تبدیل کردی گئیں۔ ان کی علاقائی زبان ختم کرکے چینی زبان مسلط کردی گئی۔ تمام مذہبی رسوم پر پابندی عائد کردی گئی۔ قرآن کی تعلیمات ممنوع قرار دے دی گئیں۔ 1966 میں جب مسلمانوں نے کاشغر میں عیدالاضحیٰ کی نماز پڑھنے کی کوشش کی تو چین کی فوج نے گولیاں برسا کر ہزاروں مسلمانوں کو شہید کردیا۔ جس کے بعد پورے صوبے میں انقلاب کی صورت پیدا ہوئی تو چین کی فوج نے مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہوئے تقریباً 75ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا۔
اس علاقے میں پٹرول، کوئلے اور یورینیم کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ چین کے عالمی منصوبوں اور چین کی اقتصادی اور عسکری برتری میں یہ علا قہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے چین اس علاقے میں کسی ادنیٰ سی حکم عدولی اور احتجاج کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک طرف چین وہاں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے چین کی اکثریتی نسل ’’ہان‘‘ کو بڑی تعداد میں منتقل کررہا ہے تو دوسری طرف ایغور نسل کے لوگوں کو شدید نگرانی میں رکھ رہا ہے اور انہیں اپنے ڈی این اے اور بائیو میٹرکس کے نمونے دینے پڑ رہے ہیں۔
چین سے آمدہ اطلاعات کے مطابق سنکیانگ میں آباد دس لاکھ افراد کو عقوبت خانوں میں رکھا جا رہا ہے چینی حکومت جنہیں ’’سرکاری ری ایجوکیشن کیمپ‘‘ کہتی ہے۔ وہاں آباد کوئی شخص اگر ملک سے باہر آباد کسی شخص سے واٹس اپ کے ذریعے رابطہ کرتا ہے تو اسے بھی گرفتا ر کرلیا جاتا ہے۔ بعض سابق قیدیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ حراستی کیمپوں میں انہیں مذہب ترک کرنے یا مذہب کی مذمت کرنے اور صدر شی چن پنگ کے ساتھ وفاداری کی قسمیں کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایک شخص عمر کا کہنا ہے کہ ’’وہ ہمیں رات کو سونے نہیں دیتے تھے، گھنٹوں لٹکائے رکھ کر پیٹتے تھے۔ ان کے پاس لکڑی کے موٹے موٹے ڈنڈے اور چمڑے کے سوٹے تھے جب کہ تاروں کو موڑ کر انہوں نے کوڑے بنا رکھے تھے۔ جسم میں چبھونے کے لیے سوئیاں اور ناخن کھینچنے کے لیے پلاس تھے۔ یہ سب چیزیں میز پر ہمارے سامنے رکھی ہوتیں اور ان کا ہم پر استعمال کیا جاتا۔ ہم دوسرے لوگوں کی چیخیں بھی سنتے۔‘‘ ان عقو بت خانوں کا حال بتاتے ہوئے ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ ’’رات کے کھانے کا وقت تھا۔ تقریباً 1200 افراد ہاتھوں میں پلاسٹک کے کٹورے لیے کھڑے تھے۔ انہیں کھانا اس شرط پر مل سکتا تھا کہ وہ چین کے حق میں گیت گائیں۔ ان لوگوں کی حالت روبوٹ کی طرح تھی جن کی روحیں نکالی جا چکی ہوں۔ وہ اس طرح کا برتاؤ کرتے تھے جیسے کسی کار حادثے کی وجہ سے ان کی یاداشت جاتی رہی ہو۔‘‘
چین کی حکومت سنکیانگ میں کسی ’’انٹرنمنٹ کیمپ‘‘ کے وجود سے انکار کرتی ہے۔ وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ دراصل حکومت نسلی علیحدگی پسندوں اور پر تشدد دہشت گردانہ اور مجرمانہ سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کررہی ہے۔ تاہم بی بی سی کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ چین ایک ایسا ملک ہے جہاں سنکیانگ میں ہر وقت آپ پر نظر رکھی جاتی ہے۔ آپ ذرا سی غلطی پر سلاخوں کے پیچھے جاسکتے ہیں۔ جہاں سوچ پر بھی پہرہ ہے۔ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ لوگوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ لاکھوں لوگ لا پتا ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگوں کے پاس کوئی حق نہیں ہے۔ آپ کو کوئی عدالت کوئی وکیل نہیں ملے گا۔ مریضوں کے لیے کوئی دوا نہیں ہے۔ زندہ افراد کیمپوں سے مردوں کی حالت میں نکل رہے ہیں۔
چین کی جانب سے ایغور مسلمانوں پر ظلم وستم کی اس انتہا پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جارہی ہے۔ برطانیہ، امریکا اور یہاں تک کے اقوام متحدہ نے بھی ایغور مسلمانوں کی حالت پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم چین گزشتہ تین دہائیوں میں جس طرح ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھرا ہے، اس کے ساتھ ہی چین کی سرمایہ کاری کی قوت کو دیکھتے ہوئے کوئی ملک چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ امت مسلمہ کے حوالے سے ایغور مسلمانوں پر ظلم وستم مسلمانوں کے لیے حساس صورتحال ہے۔
مسلم ممالک کے حکمرانوں سے کوئی امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس معاملے پر ادنیٰ سا ردعمل کا مظاہرہ بھی کریں لیکن مسلم عوام کا رویہ بھی اس صورتحال پر عجیب ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان امریکا، روس، اسرائیل اور بھارت کے مظالم پر احتجاج کے مظاہرے کرتے رہتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ چین کے اس درجے کے مظالم پر امت مسلمہ میں کہیں کوئی احتجاج اور مظاہر ہ دیکھنے میں نہیں آرہا۔ پاکستان کی وہ دینی اور سیاسی جماعتیں جو سڑکوں پر آنے کے بہانے ڈھونڈتی ہیں اس معاملے پر لب بستہ ہیں۔
پچھلے دنوں پاکستان کے صدر عارف علوی نے 30دسمبر کو الجزیرہ پر ایغور مسلمانوں کے خلاف چینی حکومت کی جنگ پر اس کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس معاملے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ صدر اور وزیراعظم کے اس ردعمل کی وجہ چین کی سی پیک کی صورت پا کستان پر نوازشات ہیں۔ سی پیک پاکستان کے لیے جتنا اہم ہے اس سے کہیں زیادہ چین کا فوجی، سیاسی اور معاشی مفاد اس سے وابستہ ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان جن گونا گوں مسائل کا شکار ہے، ہم چین کی ناراضی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ امریکا کے بارے میں بھی ہر حکومت کا یہی کہنا رہا کہ ہم امریکا کو ناراض کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ بھارت کے معاملے میں بھی ہمارا یہی موقف ہے کہ ہم بھارت سے جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ گزشتہ 70 برس سے ہر معاملے میں ہم کمزور موقف دینے کے عادی ہوگئے ہیں۔ اس کمزور موقف سے ہمیں طاقت ملی یا ہم کمزور ہوئے؟۔ ستر برس سے اللہ سبحانہ تعالیٰ اور اسلام کو چھوڑ کر ہم دنیا کی ہر قوت کو سجدے کرتے پھر رہے ہیں، ہر طاقت سے نظریں چرارہے ہیں اور مضبوط اور طاقتور ہونے کے بجائے کمزور سے کمزور تر ہوتے جارہے ہیں۔ سورہ آل عمران کی آیت 160میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے ’’اللہ تمہارا مددگار ہے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے کہ تمہاری مدد کرے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ ہی پر بھروسا رکھیں۔‘‘