’’می لارڈ سوری‘‘

215

 

 

اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ذرائع ابلاغ پر ججوں کی تقریر کی براہ راست کوریج اور بعد میں اس کا نشر ہونا منصف کے ضابطہ اخلاق کے خلاف ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اتوار کو اسلام آباد میں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے لیے ’لیڈرشپ اور مینجمنٹ‘ پر 6 روزہ تربیتی کورس کی تقریب تقسیم اسناد کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو براہ راست کوریج سے منع کرتے ہوئے انہیں بعد میں نشر کرنے کے لیے تقریر ریکارڈ کرنے سے بھی روک دیا۔ اگر اس رپورٹ کو من و عن درست مان لیا جائے تو دماغ معصومانہ سوال کرنے پر مجبور ہوتا ہے کہ پھر چیف جسٹس پاکستان متعدد بار براہ راست خطاب کیوں نشر ہونے دیتے رہے؟ وہ کیوں ’’منصف کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے رہے؟‘‘۔
ایسا لگتا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ نے ضابطہ اخلاق کی مسلسل خلاف ورزی کا نوٹس لیتے ہوئے اپنے تئیں ’’متعلقہ افراد‘‘ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ذرائع ابلاغ پر ججوں کی تقریر کی براہ راست کوریج اور بعد میں اس کا نشر ہونے کے عمل کو نا روکنا منصف کے ضابطہ اخلاق کے خلاف ہے۔ بہتر ہوگا کہ جسٹس اطہر من اللہ ’’منصف کے ضابطہ اخلاق‘‘ کے بارے میں تفصیلی نوٹ جاری کردیں تاکہ آئندہ کوئی جج اپنے ضابطہ اخلاق سے تجاوز کرے تو اسے موقع پر ہی روکا جاسکے۔ مگر جج صاحبان کو تو کوئی جج ہی روک سکتا ہے یا وکیل ’’آبجکشن می لارڈ‘‘ کہہ کر ہی روک سکتا ہے کسی عام آدمی کی تو یہ جرأت نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ جج تو کہیں بھی کھڑا یا بیٹھا ہو، وہی عدالت کہلاتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کے ان الفاظ یا ریمارکس کو یقیناًچیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے نوٹ کرلیا ہوگا یا ان کا نوٹس لیا ہوگا۔ بہرحال اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ کورٹ رپورٹر برادرم بلال احمد کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے موقف کے ساتھ جا ملے، چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ سے عین 5 دن قبل جسٹس منصور علی شاہ کے 6 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ نے بھونچال پیدا کردیا ہے۔ ان کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کے اقدام پر سنگین نوعیت کے سوالات اٹھاتے ہوئے ان مقدمات کی دوبارہ سماعت کرنے کا بھی نوٹ لکھ دیا ہے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹا کر سنے گئے تھے۔
مارچ 2018 کو پشاور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ کے روبرو انسانی حقوق کے مقدمات کی سماعت مقرر کی گئی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چوں کہ سوموٹو نوٹس پر اختلافی نوٹ لکھ چکے تھے اور اعتراض عائد کیا کہ ڈی جی انسانی حقوق کمیشن خود سے ان نوعیت کے مقدمات مقرر نہیں کر سکتے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ دوران سماعت ہی چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بینچ ٹوٹ گیا اور ہم تینوں چیمبر میں چلے گئے مگر کچھ ہی لمحات بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نکال کر دو رکنی نیا بینچ تشکیل دے دیا گیا، جسٹس منصور علی شاہ لکھتے ہیں کہ جب تک ایک جج خود کو مقدمات سے الگ نہ کرے اسے کس طرح اور کس قانون کے تحت بینچ سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ اختلاف رائے کو دبانا یا دفن کرنا آزاد انصاف کے نظام کی بنیاد کو ہلا سکتا ہے، جج سے کسی بات پر اختلاف کی بنیاد پر بینچ تبدیل کرنا آئین و عدلیہ کی آزادی کے برخلاف ہے، جسٹس منصور علی شاہ لکھتے ہیں کہ وہ یہ اختلافی نوٹس چیف جسٹس پاکستان کی ریٹائرمنٹ سے قبل اس لیے لکھنا چاہتے ہیں کیوں کہ یہ ان کے ضمیر پر بوجھ تھا اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس بوجھ کر اتار دینا چاہیے۔ یہی نہیں جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس اور ان پر مشتمل بینچ کے روبرو لگنے والے مقدمات میں فیصلوں پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور قرار دیا ہے کہ ان مقدمات کو دوبارہ سنا جانا چاہیے اور اس کے لیے چیف جسٹس پاکستان تین رکنی بینچ تشکیل دیں۔
بلال احمد نے یہ ’’فیس بک‘‘ پر جاری کی۔ شاید ان کی ’’جرات مند‘‘ اخبار نے اسے شائع کرنے سے حسب سابق احتیاط گریز کیا۔ بہرحال ہماری عدلیہ مقدس ہے ہم اس کا احترام کرنے کے پابند ہیں اور کرتے بھی رہیں گے کیوں کہ ہم عدالت اور منصف کے حوالے سے صرف ایسا ہی کرسکتے ہیں۔ مگر کیا یہ تبصرہ کرنے کی اجازت مل جائے گی کہ ’’جج جج ہوتا ہے عدالت میں ہو یا اس سے باہر‘‘ مگر صرف ریٹائرمنٹ سے پہلے تک۔ تو کیا وہ منصف کی کرسی پر بیٹھ کر وہ بھی کرسکتا ہے جس سے فیصلے متنازع قرار پائیں ؟؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر کیا کچھ درست کہلائے گا۔ اس لیے میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ ’’می لارڈ سوری‘‘۔