توہین یا توقیر؟

222

 

 

قومی احتساب بیورو کے چیرمین جسٹس جاوید اقبال اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کے درمیان وزیر اعظم کی احتساب بیور و میں طلبی پر دلچسپ جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ فواد چودھری نے تو اپنے روایتی اور غیر محتاط انداز میں یہ کہہ کر ایک جملہ اُچھالا تھا نیب کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کو طلب کرنے کو ان کے منصب کی توہین اور زیادتی ہے مگر دوسرے ہی روز چیرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے شاعرانہ انداز میں کہا کہ یہ وزیر اعظم کی توہین نہیں توقیر ہے۔ اگر قائد حزب اختلاف نیب میں پیش ہو سکتا ہے تو قائد ایوان کیوں نہیں؟۔ عمران خان اس وقت پارلیمانی سسٹم کے تحت وزیر اعظم بنے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کے اپنے ہی تقاضے اور میعار واصول ہوتے ہیں۔ یہاں عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والا وزیر اعظم بظاہر طاقتور اور ناقابل تسخیر دکھائی دیتا ہے مگر اندر سے یہ وزیر اعظم قدم قدم پر جواب دہی اور حساب کتاب کی بنا پر بہت کمزور ہوتا ہے۔ اس نظام کی روح یہی ہوتی ہے جو اسلامی خلافت میں کُرتے کا حساب طلب کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔ وقت کا خلیفہ اس سوال کو اپنی توہین سمجھنے کے بجائے برسرِمحفل ہی اپنا حساب پیش کرتا ہے۔ اسی طرح جمہوری حکمران اور عہدے کی چکاچوند حقیقت میں کمزور ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ، کمیٹیاں، عدل اور احتساب کے ادارے، میڈیا ہمہ وقت جمہوری حکمران کا محاسبہ کرتے رہتے ہیں۔ باشادہت میں یہ روایات موجود نہیں ہوتیں۔ وہاں بادشاہ کا سراپا تقدس کے ہالوں میں لپٹا ہوتا ہے۔ رعایا اور اداروں کی تنقید کو بادشاہ سلامت کی توہین گردانا جاتا ہے۔ اس نظام میں ملک کے قوانین کا محور ومرکز بادشاہ کی ذات، سیاسی ضرورتیں اور اس کا امیج ہوتا ہے۔ طاقت اور اختیار کر سرچشمہ فرد واحد ہوتا ہے۔ ماضی قریب کے حکمرانوں سے یہی گلہ ہوتا تھا کہ وہ جمہوریت اور جمہوری حکمران کے امیج پر بادشاہ سلامت جیسا پرتقدس ہالہ اور جال بُنتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر اختیارات فرد واحد کی ذات میں سمیٹتے ہیں۔
نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو نے نوازشریف پرآئینی ترامیم کے ذریعے خود کو امیرالمومنین جیسا پرتقدس اور مضبوط حکمران بنانے کا الزام عائد کیا تھا۔ عمران خان بائیس سال کی سیاسی ریاضت کے بعد وزیر اعظم بنے ہیں۔ گوکہ اس سفر میں انہیں وسائل اور معاونین دستیاب ہوتے چلے گئے مگر مرکزی کردار کے طور پر وہ خود مشکل حالات میں کھڑے رہے۔ اس طرح عمران خان کو سیاست میں ’’پیرا شوٹر‘‘ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ انہیں جواب دہی کا زیادہ احساس ہونا چاہیے۔ چہ جائیکہ ان کے ساتھی نیب کی طلبی کو ان کے منصب کی توہین قرار دیں۔ جمہوری طور پر منتخب عمران خان اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ریاستی اداروں کے آگے اپنی جواب دہی کو یقینی بنائیں۔ اس لیے کہ جمہوریت اور خود اسلامی معاشرے میں کوئی حکمران ظلِ سبحان، کوئی اوتار اور تنقید ومحاسبہ سے بالاتر نہیں ہوتا۔ احتساب بیورو ہو یا عدلیہ کا کوئی ادارہ وزیر اعظم سمیت کسی صاحبِ اختیار کو طلب کرے تو اس میں توقیر کا پہلو ہو یا نہ ہو مگر توہین کا پہلو ہرگز تلاش نہیں کیا جا نا چاہیے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو اپنے عہدے کے باوجود سوالات اور پوچھ گچھ کے عمل سے گزرتے رہے۔ اندرا گاندھی کو ہیلی کاپٹر کے استعمال پر نااہلی کا سامنا کرنا پڑا تھا جس سے مشتعل ہو کر انہوں نے بھارت کی جمہوریت کو رسوا کرتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ جسے آج بھی بھارت کے دانشور تاریخ کا سیاہ باب قرار دے رہے ہیں۔ مونیکا کیس میں بل کلنٹن کا محاسبہ اور ان کی غیر ہوتی ہوئی حالت کو پوری دنیا نے دیکھا تھا۔ عراق کی جنگ سمیت کئی معاملات پر پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں ٹونی بلیئر کے ماتھے پر پسینے کی بوندوں اور چہرے کی خفت کا بھی ایک زمانہ چشم دید گواہ ہے۔
فواد چودھری کو وزیر اعظم کے عوامی عہدے کو مصنوعی تقدس کے پردوں میں لپیٹنے کے بجائے اپنے موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ عمران خان کو بھی اداروں کے سوال وجواب کا سامنا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ عمران خان جس ریاست مدینہ کو اپنا ماڈل قرار دے رہے ہیں وہاں تو عدل اور مساوات کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم ہوئی تھیں اور آج تک انسانیت ان سے روشنی اور راہنمائی حاصل کرتی ہے۔ نواشریف کے دور میں جب ان کے دست وبازو انہیں قانون اور آئین سے بالاتر مافوق الفطرت شخصیت ثابت کرتے تھے تو وہ بھی جمہوریت کی روح کی نفی تھی۔ اب اگر عمران خان کے احباب ان کی نظروں میں آنے یا ان کی جبیں کی شکنیں دور کرنے کے لیے انہیں قانون اور آئین اور جواب دہی سے بالاتر قراردیں گے تو یہ بھی اسی ذہنیت کا تسلسل ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خرابی وزیر اعظم کی کرسی اور حد سے زیادہ اختیارات میں ہے کہ جس کرسی پر بیٹھتے ہی وزیر اعظم خود کو ظل الٰہی سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہوتا ہے۔
اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کو بھی آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور جیسا ہی ثابت کرنے پر مُصر ہے۔ وزیر اعظم کو اگر یقین ہے کہ دونوں شخصیات کی بہنیں ایک جیسی نہیں تو انہیں قانون کو اس معاملے میں اپنا کام کرنے کی راہ دینا ہوگا۔ کل اگر کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں تھا تو اب بھی اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ علیمہ خان اور فریال تالپور کے معاملات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا عہدہ فریال تالپور صاحبہ کی رضامندی اور خوشنودی سے ملا کرتا تھا۔ سندھ اور آزادکشمیر میں چوں کہ پارٹی کی حکومتیں تھیں اس لیے ان دونوں علاقوں میں عہدے اور مناصب کے خواہش مندوں سے وابستہ کہانیاں زیر گردش رہی ہیں۔ کون کیا ہے؟۔ یہ قانون کو طے کرنا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ محض حکمران کا قد اداروں سے اونچا کر دیا جائے اور انہیں قانون کے سامنے پیش ہونا اپنی توہین معلوم ہو۔ عمران خان ریاست مدینہ اور مغربی جمہوریتوں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے اس لیے ہو نہ ہو انہوں نے نیب کی طلبی کو توہین کے زاویے سے نہ دیکھا ہو اور محض حاضری لگانے کے شوق میں فواد چودھری نے انہیں ظل سبحان بنانے کی کوشش کی ہو۔ بات جو بھی ہو جمہوری حکمران کو جمہوریت کے مروجہ اور مسلمہ اصولوں کا سامنا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ منصب دار کا قانون کے آگے سپر ڈالنا خود سپردگی اختیار کرنا کسی طور بھی توہین کے زمرے میں نہیں آتا اور اگر قانون کا سامنا کرنے میں توہین کا پہلو بھی نکلتا ہو تو خود کو عہدے اور منصب کے لیے تیار رکھنے والوں کو اس کے لیے بھی ذہنی اور عملی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ جمہوریت میں ’’میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو‘‘ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔