ہیلتھ کارڈ کے اجرا کا مقصد

351

وفاقی وزیر صحت عامر کیانی کا کہنا ہے کہ رواں ماہ کے آخر تک 2 کروڑ ہیلتھ کارڈ جاری کردیے جائیں گے جس کی مدد سے غریب افراد نجی و سرکاری اسپتالوں سے مفت علاج کرواسکیں گے ۔ دیکھنے میں یہ ایک غریب پرور اقدام ہے لیکن اس پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ اس میں بھی غریبوں کو فروخت کردیا گیا ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ آخر حکومت ہیلتھ کارڈ متعارف ہی کیوں کروارہی ہے ۔ تعلیم و صحت کی سہولتوں کی فراہمی تو حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ یہ ہر سطح کی حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کو صحت کی کماحقہ سہولیات نہ صرف مہیا کرے بلکہ وقتا فوقتا ان سہولیات کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بھی کرتی رہے۔ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ موجودہ سہولیات ہی کی فراہمی کے لیے مناسب بجٹ مہیا نہیں کیا جارہا ۔ اسپتالوں میں ایکسرے مشین موجود ہے تو فلمیں موجود نہیں ہیں ، لیبارٹری میں ٹیسٹ کی مشینیں موجود ہیں تو ٹیسٹ کٹ غائب ہے ، ایم آر آئی مشین ایک چھوٹے سے پرزے کی خرابی کی بناء پر کام نہیں کررہی ۔ ایسے کئی مسائل ہیں جس کی وجہ سے بیچارے غریب مریض نجی اداروں سے بھاری علاج کرانے پر مجبور ہیں ۔ اب تو شاید ہی کوئی سرکاری اسپتال بچا ہو جہاں پرمریضوں کو دوائیں فراہم کی جارہی ہوں ۔ صورتحال یہ ہے کہ آپریشن کے لیے بھی بیہوشی کی دوا سے لے کر سرجری کا بلیڈ تک مریضوں سے منگوایا جاتا ہے ۔ اب حکومت بھاری بجٹ کے ساتھ ہیلتھ کارڈ جاری کررہی ہے ۔ پتا چلا ہے کہ ہیلتھ کارڈ کا اجراء بھی درون خانہ دوا ساز کمپنیوں کو نوازنے کی سازش ہے ۔ دوا ساز اداروں کے مالکان کو ایک نجی محفل میں گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ کروڑوں کی تعداد میں ہیلتھ کارڈ جاری ہونے کے بعد ادویہ کی مانگ اتنی بڑھ جائے گی کہ وہ اس کی طلب کو پورا نہیں کر پائیں گے۔اطلاعات کے مطابق گورنر سندھ نے ادویہ ساز کمپنیوں کے مالکان کی تالیف قلب کرتے ہوئے کہا کہ بس تھوڑا سا صبر کریں ، اس کے بعد ہر کمپنی میں توسیع ہو رہی ہوگی ۔ حال ہی میں حکومت نے ادویہ کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافہ کیا ہے ۔ دوا ساز کمپنیوں کو نوازنے کے لیے ہیلتھ کارڈ کا اجراء مجرمانہ اقدام ہے ۔ جو خبریں آئی ہیں ، ان کے مطابق یہ غرباء کو گھیر کر ڈاکٹروں کے پاس پہنچانا ہے جس کے بعد ڈاکٹر ان مریضوں کو مہنگی دوائیں اور ٹیسٹ تجویز کریں گے ۔ غریب مریضوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی زندگی کے لیے ہر قیمت پر یہ دوائیں خریدیں گے اور یوں فارما انڈسٹری کی پانچوں انگلیاں جو پہلے ہی گھی میں ہیں مزید دونوں ہاتھوں سے منافع بٹوریں گی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ادویہ کی قیمتوں میں مناسب کمی کے لیے ٹھوس اقدامات کرتی ۔ ادویہ کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کو سرکاری سطح پر بلا کسی ٹیکس کے درآمد کرنے کے انتظامات کیے جائیں اور انہیں فارما انڈسٹری کو فراہم کیا جائے ۔ ادویہ کو سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں سے مبرا قرار دیا جائے ۔ اس کے بعد لاگت کا تخمینہ لگا کر مناسب منافع کے ساتھ قیمتیں مقرر کی جائیں ۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ حکومت اپنے عوام کے مفاد کا تحفظ کرنے اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کے بجائے سرمایہ کاروں کے مفاد کے تحفظ کے لیے اقدامات کررہی ہے ۔ فارما انڈسٹری جو کچھ بھی کماتی ہے ، اس کا ایک بڑا حصہ رائلٹی کی صورت میں ملک سے باہر چلا جاتا ہے ۔ جب قیمتیں کم ہوں گی تو یہ رائلٹی بھی کم ہوگی ۔ یہ سب کچھ کرنا انوکھا پن نہیں ہوگا ۔ پڑوسی ملک بھارت میں حکومت نے ادویہ کی قیمتیں کنٹرول کی ہوئی ہیں ۔ پاکستان کے مقابلے میں وہاں ادویہ کی قیمتیں نصف یا اس سے بھی کم ہیں مگر پاکستان میں سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد ۔ پاکستان میں جتنے بھی ریگولیٹری ادارے ہیں وہ سب ماتحت اداروں کے ہاتھوں میں عملا یرغمال ہیں ۔ جس طرح اوگرا تیل کمپنیوں اور نیپرا بجلی بنانے والی کمپنیوں کے اشارے پر ناچ رہے ہیں ، بالکل یہی صورتحال ڈریپ کی ہے ۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ڈریپ میں حقیقی عوامی نمائندے بھی شامل کیے جائیں اور ڈریپ ادویہ کی قیمتوں کے تعین کا جو بھی فارمولا طے کرے ، اسے عوام کے لیے ڈریپ کی ویب سائیٹ پر بھی اپ لوڈ کیا جائے ۔ ورنہ تو کہا جارہاہے کہ ’’اُمراؤں کو غریبوں کی پہنچ سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔