نہیں! نہیں یہ حل نہیں ہے

195

باباالف کے قلم سے
چند دن بعد سابقہ ہوجانے والے چیف جسٹس ثاقب نثار کی فلم اسٹار ریما کے ساتھ تصویر آج کل سوشل میڈیا پر رش لے رہی ہے۔ ریما فلم انڈسٹری کی فن کار ہیں اور چیف جسٹس عدالت عظمیٰ کے۔ تصویر میں ریما چیف جسٹس پر، چیف جسٹس ریما پر اور دونوں پاکستان کے عدالتی نظام پر ہنسی روکے کھڑے ہیں۔ چیف جسٹس اور ریما کی عمریں حج پر جانے کی ہیں لیکن حج کے بجائے دونوں ایک دوسرے کو جج کررہے ہیں۔ تصویر میں ایک کی بیوی اور دوسرے کا شوہر نہیں ہے اس پر دونوں خوش ہیں۔ ممکن ہے چیف جسٹس عدالت اور ریما شوہر سے فرار پر خوش ہوں۔ چیف جسٹس صاحب نے فیصلے تو خیر جیسے بھی کیے لیکن نواز شریف کو رسیدوں کی اہمیت سمجھادی۔ محترمہ مریم نواز سے بیکری والے نے پوچھا ’’نواز شریف کی سالگرہ کا کیک رائے ونڈ بھیجیں یا کوٹ لکھپت جیل؟‘‘ مریم نے جواب دیا ’’کیک چاہے کہیں بھی بھیجو لیکن رسیدیں ضرور بھیج دینا۔‘‘ ایک مرتبہ چیف جسٹس نے کہا تھا اللہ تعالیٰ پاکستان کی تمام مشکلات ختم کردے۔ اس پر آواز آئی ’’اپنی موت کی دعا نہیں مانگی چا ہیے۔‘‘ ریما کے بجائے چیف جسٹس اگر میزان عدل کے ساتھ کھڑے ہوتے تو شاید معاشرے کی حالت بہتر ہوتی۔
چیف جسٹس صاحب نے اپنے دور میں ڈیم بنانے پر توجہ دی، اسپتالوں کے دورے کیے، بچے کم پیدا کرنے پر سیمینار کیے، مختلف تقریبات میں شرکت کی لیکن عدالتی نظام کی اصلاح پر توجہ نہیں دی۔ جاتے جاتے حضرت ایک اور اصلاحی بیان جاری کر گئے ہیں۔ 6جنوری 2019 کو چیف جسٹس نے ایک بیان میں موجودہ قوانین کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں برطانوی دور کے قوانین پر عمل کیا جارہا ہے جو نہ تو اسلام سے اور نہ مقامی روایات سے ہم آہنگ ہیں۔ چیف جسٹس صاحب کی یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں برطانوی دور کے جابرانہ قوانین نافذ ہیں جو نہ تو اسلام سے ہم آہنگ ہیں اور نہ مقامی روایات سے۔ یہ برطانوی پارلیمنٹ تھی جس نے اپنے 1947کے انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ کے تحت پاکستان کے ابتدائی قوانین تیار کیے تھے۔ پاکستان نے 1956تک اپنا پہلا آئین تیار نہیں کیا تھا۔ یہ آئین اور اس کے بعد کے تمام آئین جن میں 1973 کا آئین بھی شامل ہے برطانیہ کے سیکولر قانون کے ڈھانچے پر ہی استوار کیے گئے ہیں۔ برطانیہ کے چھوڑے ہوئے استعماری نظام کو لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے اور پاکستان کے عوام کو اس نظام میں شامل کرنے کے لیے پاکستان کے آئین میں کچھ ظاہری تبدیلیاں کی گئیں تاکہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ یہ سیکولر آئین اسلامی آئین میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اس مقصد کے لیے آئین کی شق 227میں یہ درج کیا گیا ہے کہ ’’ان (اسلامی) قوانین سے متصادم کوئی قانون نہیں بنا یا جائے گا۔‘‘ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسی ہی شق افغانستان کے آئین میں آرٹیکل 3میں موجود ہے جس میں درج ہے ’’اسلام کے مقدس مذہب کے خلاف کوئی قانون نہیں ہوسکتا‘‘ اور عراق کے آئین میں آرٹیکل (A) 2 کی صورت میں موجود ہے جسے خود امریکا نے شامل کیا ہے۔ اس شق میں لکھا ہے ’’کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا جو اسلام کے اصولوں کے منافی ہو۔‘‘ کیوں کہ امریکا اچھی طرح جانتا ہے کہ اس قسم کی شق کے شامل کرنے سے اسلام کے نفاذ کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی اس شق کو شامل کرنے سے کوئی آئین اسلامی آئین بن سکتا ہے۔
اللہ کی آخری کتاب قرار دیتی ہے ’’اور جو کوئی بھی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں ہوگا‘‘۔ (آل عمران: 85) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی ریاست میں کسی اور نظام یا نظریے سے قوانین اخذ نہیں کیے جاسکتے اور نہ ہی انہیں اسلامی نظام میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ 73کے آئین کی مذکورہ بالا شق میں اس بات کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ قرآن وسنت کے علاوہ کسی بھی ماخذ سے قوانین اخذ کیے جاسکتے ہیں اور اخذ کرنے کے بعد اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا قرآن وسنت میں اس کے خلاف کوئی نہی وارد ہوئی ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے موجودہ قوانین کو جدید دور کے قوانین سے ہم آہنگ کرنے کی جو بات کی ہے یہ ایک آگ سے نکل کر دوسری آگ میں کودنے کے مترادف ہے۔
مسلمانوں نے جب بھی نئے نئے علاقے فتح کیے اور وہ علاقے اسلامی ریاست کا حصہ بنے مسلمانوں نے کبھی اس بات کی کوشش نہیں کی کہ ان علاقوں میں رائج قوانین یا روایات کو اسلامی قوانین سے ہم آہنگ کرکے اسلام اور کفریہ قوانین کا ایک مکسچر نافذ کیا جائے۔ مفتوحہ علاقوں میں جو قوانین نافذ تھے مسلمانوں نے انہیں یکسر ختم کرکے اسلامی قوانین کو زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا جلد ہی ان علاقوں میں رہنے والے مختلف مذاہب، رنگ اور نسل کی تفریق کے باوجود ایک امت بن کر امت مسلمہ کا حصہ بن گئے۔ اسلامی شریعت میں ماضی کے تمام واقعات، موجودہ دور کے تمام مسائل اور مستقبل کی تمام مشکلات کے حل موجود ہے۔ دورحاضر اور نہ ہی مستقبل کا کوئی مسئلہ ایسا ہوگا جس کا حل اور اس کے لیے قانون اسلامی شریعت میں موجود نہ ہو۔ اسلام کو دیگر عقائد، نظریات، قوانین اور نظاموں کی پیوند کاری کی ضرورت نہیں۔ اسلام عقائد اور نظام ہائے حیات پر مشتمل ایک مکمل نظریہ ہے جو اپنے پیرو کاروں کو صرف وحی الٰہی کی پیروی کرنے اور باقی تمام عقائد، نظاموں اور قوانین کو رد کرنے کا حکم دیتا ہے۔
گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں شراب کی خرید وفروخت کی ممانعت کابل پیش کیا گیا۔ ارکان اسمبلی کی اکثریت نے جسے مسترد کردیا۔ اس بات میں کسی کو شک وشبہ نہیں ہوسکتا کہ اسلام شراب کو حرام قرار دیتا ہے لیکن موجودہ آئین اور اسمبلیوں میں اللہ اور رسول ؐ کا قانون توثیق کے لیے عوامی نمائندوں کا محتاج ہے۔ یہاں اقوام متحدہ کی قرار دادیں قرآن وسنت سے بالاتر ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے استعماری اداروں کی پالیسیوں کو نافذ کرنا قانونی ہے۔ سود اور فحاشی حلال ہے۔ انگریز کا عدالتی نظام بدستور نافذ ہے۔ ایک ہندو اسلامی ریاست کا چیف جسٹس ہو سکتا ہے۔ امریکا کو مسلمانوں کے قتل عام کے لیے راہداری دینا جائز ہے۔
آپ ملک میں اسلام کو نافذ کرکے دیکھیے جو مسلمان نماز میں صفیں بناتے ہیں، وہ منظم ہونا جانتے ہیں۔ صفوں میں گنجائش پیدا کرکے، اوروں کو ایڈجسٹ کرتے ہیں۔ یہ مسلمان زندگی کے دیگر معاملات میں بھی ایسے ہی منظم نظر آئیں گے، ایسی ہی شاندار کارگردگی کا مظاہرہ کریں گے جب ریاست کے قوانین بھی اس اللہ سبحانہ وتعالی کی جانب سے ہوں گے جس کے قوانین کا احترام وہ نماز میں کرتے ہیں، حج کے موقع پر قدم قدم احتیاط کرتے ہیں کہ کوئی قانون پامال نہ ہوجائے، روزہ رکھتے ہیں تو ایک سیکنڈ پہلے بھی روزہ کھولنے کی جرات نہیں کرتے۔ زکوۃ دے کر خوشی اور طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ اس میں کسی قسم کی ڈنڈی مارنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ قوانین نافذ کیجیے جو اسلام کے مطابق ہیں، اس ملک کے لوگوں کے عقیدے سے جڑے ہیں پھر دیکھیے گا لوگ کس طرح قانون کی پیروی کرتے ہیں۔ اس ملک کے مسائل کا حل اسلامی نظام کے نفاذ میں پوشیدہ ہے نہ کہ موجودہ قوانین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے مزید غیراسلامی بنانے میں۔