سود کے متبادل کی تلاش

299

شریعت عدالت یا عدالت شریعہ کی حیثیت بھی دوسری عدالتوں کی طرح ہے بلکہ اس لحاظ سے زیادہ معتبر و محترم کہ گمان کے مطابق اس عدالت کے سارے ہی جج شریعت کے احکامات سے کما حقہٗ واقف ہوں گے اور شریعت پر پوری طرح عمل پیرا نہ ہوں تو بھی گناہ کبیرہ سے مجتنب ہوں گے۔ عدالت شریعہ کے قاضی ایک عام مسلمان سے زیادہ یہ بات جانتے ہیں کہ سود کیا ہے اور اس کے بارے میں قرآن و سنت کے احکامات کیا ہیں۔ ان قاضیوں کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ سود کے لین دین کو اللہ اور اس کے رسولؐ سے کھلی جنگ قرار دیا گیا ہے اور اسے زنا سے بھی زیادہ سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن جو صورتحال ہے اس میں کل کو کوئی جج یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ زنا کی تعریف کیا ہے اور اس کا متبادل کیا ہے۔ بعض ترقی یافتہ ممالک میں زنا بالرضا کو جرم کے خانے سے نکال دیا گیا ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ پاکستان کی عدالتیں سود کے بارے میں بھی کہیں یہ فیصلہ نہ کرلیں کہ اگر اپنی مرضی سے سود دیا جائے تو وہ جائز سمجھا جائے گا اور ہو بھی یہی رہا ہے کہ لوگ مجبوراً اپنی رقوم بینکوں میں رکھواتے ہیں اور بیشتر بینک سودی کاروبار کررہے ہیں۔ ایسے محتاط لوگ کم ہیں جو اپنی رقم پر عاید کردہ سود الگ کرکے اپنے استعمال میں نہیں لاتے۔ سود کی تو لکھت پڑھت بھی حرام ہے لیکن شریعت عدالت میں بیٹھے ہوئے لوگ سوال کررہے ہیں کہ ’’سود کے مخالفین پہلے متبادل نظام پیش کریں۔‘‘ یہ سادگی ہے یا کوئی ایسی بات جس کے لکھنے اور کہنے سے توہین عدالت کا فتویٰ جاری ہو جائے۔ لیکن شریعت اور اللہ رسولؐ کے احکامات کی توہین زیادہ ہے یا کسی دنیاوی عدالت کی توہین۔ کیا سود کے متبادل نظام کا مطالبہ کرنے والے شرعی معاملات کا فیصلہ کرنے کے اہل ہیں؟ متبادل نظام کے مطالبے کا صاف مطلب ہے کہ سودی کاروبار چلتا رہے گا یعنی اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ جاری رکھی جائے گی۔ گھٹتا، بڑھتا سود مسلمانوں کو کھلایا جاتا رہے گا اور جو نہ لینا چاہے اس کے حلال لقمے کو بھی حرام بنا دیا جائے کیونکہ پاکستان سمیت کئی ممالک میں سودی کاروبار رائج ہے وہاں ہر شخص کی محنت کی کمائی میں بھی سود شامل ہو رہا ہے جس کا اسے علم بھی نہیں ہوتا۔ تمام سرکاری ملازموں کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں سود شامل ہوتا ہے، نجی ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اس سوال کا آج تک جواب نہیں مل سکا کہ سود پر بڑے بھاری ملکی اور غیر ملکی قرضے اٹھانے کے باوجود معیشت کیوں نہیں سنبھلتی۔ عام آدمی غریب تر کیوں ہوتا جارہا ہے؟ اگر سود ایسا ہی منافع بخش کام ہے تو ہر طرف خوش حالی کے بجائے نحوست کیوں طاری ہے؟ عدالت شریعہ کے چیف جسٹس شیخ نجم الحسن پوچھتے ہیں کہ سود کا متبادل کیا ہے؟ وہ جس منصب پر براجمان کیے گئے ہیں یہ تو ان کی ذمے داری تھی کہ وہ متبادل نظام پیش کرتے۔ کہیں کچھ علم اور معلومات کی کمی بھی رہ گئی ہے۔ فقہا، جید علماء اور ماہرین معاشیات نکتہ بہ نکتہ بڑی تفصیل سے سود کا متبادل نظام اور اسلامی معیشت پیش کرچکے ہیں۔ لیکن کوئی پڑھے بھی تو اور ایمان کی مضبوطی کے ساتھ، یہ یقین کرکے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ سے اپنے آپ کو اور مسلمانوں کو بچانا ہے۔ عدالت شریعہ میں جید علماء کرام بھی تعینات رہے ہیں، ان ہی سے رائے لے لی جائے۔ جسٹس شیخ نجم الحسن نے دینی تعلیم ضرور حاصل کی ہوگی لیکن وہ جواز پیش کررہے ہیں کہ سود دراصل موجودہ نظام میں منافع ہے اور اسلامی نظام میں اصل رقم پر ٹیکس عاید ہوتا ہے۔ موجودہ اور اسلامی نظام میں بہت فرق ہے، سمجھ میں نہیں آ رہا کیا کریں، پہلے ریاست بتائے اسلامی معیشت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب کہ کیا کیا جائے، بہت آسان ہے کہ سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تو منصب چھوڑ دیں اور شریعت عدالت کو لپیٹ کر گھر چلے جائیں۔ فرمایا ہے کہ سود موجودہ نظام میں منافع ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کس نظام کی بات کی جارہی ہے؟ وہ جو مغرب و امریکا اور دیگر سود خور ممالک اور اداروں میں رائج ہے تو پھر اس ملک کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ بدل دیا جائے اور اسے بھی سودخور ملک قرار دے دیا جائے، اسلامی کا سابقہ لگانے کی کیا ضرورت رہ گئی؟ گزشتہ 1440 سال سے اللہ کے رسول، صحابہ کرام اور تمام ائمہ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ سود تو منافع ہے، کسی نے یہ سوال بھی نہیں کیا کہ اللہ نے ہمارے منافع کو حرام کیوں قرار دے دیا۔ یہ بھی فرمایا کہ ’’اسلامی نظام میں اصل رقم پر ٹیکس عاید ہوتا ہے۔ جناب چیف جسٹس صاحب شاید آپ کو علم میں نہ ہو کہ اسے زکوٰۃ کہتے ہیں جو مشروط طور پر اصل رقم پر عاید کی جاتی ہے اور بنیادی طور پر مخصوص نصاب پر اس وقت عاید ہوتی ہے جب رقم کو ایک سال گزر جائے۔ اس کے مصارف بھی طے ہیں۔ لیکن جسٹس صاحب جس نظام کی بات کررہے ہیں اس میں تو ہر شے پر ٹیکس عاید ہے اور ہر شخص بالواسطہ ٹیکس دے رہا ہے اور وہ ٹیکس الگ ہے جو حکومت ہر آمدنی پر وصول کرتی ہے۔ اس ملک میں اگر زکوٰۃ ہی صحیح طریقے سے نافذ کر دی جائے تو سود سے نجات کے ساتھ ہی اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم بھی پورا ہوگا۔ زکوٰۃ کا مطلب اگر آمدنی کو پاک کرنا ہے تو سود ہر طرح کی آمدنی کو ناپاک کرنا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے مطالبہ کیا ہے کہ شریعت عدالت 1992ء جیسا فیصلہ دے جس میں سودی نظام پر پابندی لگائی گئی تھی لیکن ملک کے حکمران اس شرعی فیصلے کے خلاف کھڑے ہوگئے اور آج اللہ کی پکڑ میں ہیں۔ سراج الحق نے کہا ہے کہ سود اور شراب دونوں حرام ہیں لیکن پارلیمان میں ایسے عوامی نمائندے بھی ہیں جو شراب کو بھی حلال کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو اپنے غضب سے محفوظ رکھے ورنہ ہر طرف سے غضب کو دعوت دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ لیکن کیا مدینہ جیسی ریاست میں بھی سودی کاروبار چلتا رہے گا؟ اس کا جواب عمران خان دے سکتے ہیں تو دے دیں۔ ایک نام نہاد دانشور تو یہ کہہ چکے ہیں کہ قرآن کریم میں کہیں بھی شراب کے حرام ہونے کا ذکر نہیں۔ شراب کے حرام ہونے کا مسئلہ بھی اگر کسی عدالت میں آیا تو شاید اس کا متبادل بھی طلب کیا جائے۔