آئین سے ماورا

230

مسلم لیگ (ن) کے لیے یہ خبر خوش آئند ہے کہ میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو احتساب عدالت سے دی جانے والی سزا جو ہائی کورٹ اسلام آباد کی جانب سے معطل کردی گئی تھی اور نیب نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی تھی جو ایک سرسری جرح کے بعد خارج کردی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور کارکنوں نے مٹھائیاں بانٹی تھیں، بھنگڑے بھی ڈالے تھے جسے مخالفین نے وقتی خوشی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ شریف فیملی کو ضمانت پر رہائی ملی ہے اور رہائی کا مطلب بریت نہیں ہوتا، ضمانت کسی بھی وقت منسوخ ہوسکتی ہے مگر عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ نیب کے وکیل سے یہ استفسار بھی کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو کس بنیاد پر معطل کیا جائے، کیوں کہ ضمانت منسوخ کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل تو کیا ہلکی پھلکی دلیل بھی نہیں۔ دراصل نیب کی خواہش تھی کہ اڈیالہ جیل کو جاتی امرا بنادیا جائے۔ خواہش کو خبر کے روپ میں دیکھنا ایک ایسی کمزوری ہے جس پر قابو پانے کے لیے ابھی تک کوئی معقول دوا ایجاد نہیں ہوئی، مخالفین کی خواہش خبر نہ بن سکی۔ میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی ضمانت برقرار رہی۔ سیاسی مبصرین اور آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ نیب کے وکلا نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر شریف فیملی کی ضمانت کی راہ ہموار کی تھی۔ غور طلب امر یہ ہے کہ کیا وکلا کی قانونی موشگافیاں گناہ گار کو بے گناہ ثابت کرسکتی ہیں۔ یہ بات کسی حد تک تو درست ہوسکتی ہے کہ دلائل کی
بنیاد ہی پر عدالت کسی ملزم کو مجرم قرار دے سکتی ہے، مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے، مسند انصاف پر براجمان شخص وکالت کی منزل طے کرکے ہی اس مقام تک پہنچتا ہے، وہ وکلا کی قانونی موشگافیوں سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے، کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے اسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے۔ ہمیں ایک جج نے بتایا تھا کہ فائل دیکھتے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ مقدمے کا مقصد کیا ہے مگر فیصلے کے لیے جو طریقہ کار متعین کیا گیا ہے اس پر عمل درآمد کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ گواہان کو سنے بغیر فیصلہ دیا جائے تو جانبداری کا الزام لگ سکتا ہے۔ کوئی بھی وکیل جج کو گمراہ نہیں کرسکتا کہ جج کی کرسی پر بیٹھا ہوا شخص اس سے زیادہ تجربہ کار اور زیادہ صاحب علم ہوتا ہے سو، یہ کہنا کہ نیب کا مقدمہ بہت مضبوط تھا مگر وکلا انتہائی کمزور تھے، حالاں کہ آئینی ماہرین اور سینئر وکلا شروع دن ہی سے مقدمے کو کمزور قرار دے رہے تھے۔ سماعت کے دوران جسٹس صاحبان نیب کے وکلا سے استفسار کرتے رہے کہ مفروضات کی بنیاد پر سزا کیسے دی جاسکتی ہے؟ نیب کے سارے ثبوت ہی مفروضات پر کھڑے تھے جو ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات چودھری فواد نے بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو قانون کی حکمرانی قرار دیا ہے مگر یہ بھی فرمایا ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ گویا موصوف کا جذبہ خیر سگالی مینگنیوں بھرا ہے۔ آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ شریف فیملی کے ستارے گردش سے نکلنے کی تیاری کررہے ہیں، انہیں ریلیف ملنے والی ہے اور اس امکان کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ رہائی بریت کے پیراہن میں دکھائی دے۔ عادل اعظم محترم ثاقب نثار سابق ہوچکے ہیں اور کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ موصوف نے اپنے پیش رو چودھری افتخار کی طرح قانون سے ماورا فیصلے کیے ہیں تو کیا۔ شریف فیملی کا فیصلہ بھی!!!۔