یہ سناٹا کیسا ہے بھائی؟

405

زہریلی تہذیب اور زہریلی ثقافت کا سیلاب پاکستان کے ایک ایک گھر تک پہنچ چکا ہے۔ سیلاب کے بارے میں سلیم احمد نے کہا ہے:
بستی کے گھروں کو کیا دیکھے بنیاد کی حرمت کیا جانے
سیلاب کا شکوہ کون کرے سیلاب تو اندھا پانی ہے
بلاشبہ سیلاب اندھا پانی ہوتا ہے اسی لیے اس کا شکوہ فضول ہے‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ معاشرہ اگر اندھا نہ ہو تو سیلاب کی ہر قسم کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کو دیکھ کر کبھی خیال آتا ہے کہ یہ کانا معاشرہ ہے‘ کبھی خیال آتا کہ یہ اندھا معاشرہ ہے‘ کبھی خیال آتا ہے کہ یہ کانا یا اندھا نہیں ہے بلکہ معذور ہے۔ لیکن اس سے قبل کے ہم معاشرے پر گفتگو کریں آیئے دیکھتے ہیں معاشرے میں زہریلی تہذیب اور زہریلی ثقافت کے سیلاب کا کیا حال ہے؟ اس سلسلے میں روزنامہ جنگ کی ایک خبر ملاحظہ کر لیجیے:
’’پاکستان میڈیا ریگولیٹر اتھارٹی (پیمرا) نے تمام ٹی وی چینلز کو ٹی وی ڈراموں کے موضوعات‘ عکس بندی اور پیشکش کے حوالے سے ہدایات جاری کی ہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ ہمارے ٹی وی ڈرامے بتدریج اپنا معیار کھوتے جارہے ہیں اور سماجی اور روایتی زندگی کے برعکس مواد نشر کر رہے ہیں۔ ڈراموں میں غیر اخلاقی موضوعات و معاملات پر عکس بندی معمول بن گئی ہے‘ نامناسب لباس اور حرکات بھی ڈراموں کا خاصا بن چکی ہیں‘ پیمرا کے مطابق بیش تر ڈرامے ساس‘ بہو اور خاندانی لڑائیوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے رجحانات کو فروغ دے رہے ہیں جو نوجوانوں میں بے راہ روی‘ شراب نوشی اور منشیات کے استعمال کو فروغ دے رہے ہیں۔ پاکستانی ثقافت اور اقدار کے برعکس ڈراموں میں مرد اور عورت کی مباشرت کے مناظر دکھائے جاتے ہیں‘ ڈراموں کے مکالمے اور لاڈ پیار میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے کے مناظر پر بھی ناظرین تنقید کر رہے ہیں۔ پیمرا کو ان حوالوں سے روزانہ لاتعداد شکایات موصول ہو رہی ہیں۔‘‘ (روزنامہ جنگ کراچی 9 جنوری 2019)
پاکستان میں ٹیلی ڈراما بے انتہا مقبول ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس کے ناظرین کی تعداد آٹھ‘ دس کروڑ ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ڈرامے کے ذریعے آٹھ سے دس کروڑ لوگ ایسا تفریحی مواد کھا رہے ہیں جو ہماری مذہبی‘ روحانی‘ اخلاقی‘ تہذیبی اور ثقافتی تصورات کی ضد ہے۔ اس مواد کو اگر روحانی اور اخلاقی اعتبار سے زہر قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پیمرا کے ہدایت نامے کی خبر کو پاکستان کے ہر اخبار اور ہر نیوز چینل کی شہ سرخی ہونا چاہیے تھا مگر روزنامہ جنگ کراچی میں یہ خبر صفحہ 3 پر دو کالم کی سرخی کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ یہ غنیمت ہے۔ اس لیے کہ کئی انگریزی اخبارات میں تو یہ خبر سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہوئی۔ جنگ کی خبر کی زبان بھی اہم ہے۔ خبر میں کہیں نہیں کہا گیا کہ ہمارے ڈراموں کا مواد ہمارے مذہبی اور اخلاقی تصورات کو پامال کر رہا ہے۔ اس کے برعکس خبر میں کہا گیا ہے کہ ہمارے چینلز ایسا مواد نشر کر رہے ہیں جو ہماری ’’سماجی‘‘ اور ’’روایتی‘‘ زندگی کے برعکس ہے۔ سماجی اور روایتی زندگی کے الفاظ اہم ہیں مگر ان کو پڑھ کر بہت کم لوگ چونکتے ہیں اس لیے کہ مذہبی اور اخلاقی تصورات کی پامالی کی اطلاع پر زیادہ لوگ چونکتے اور متوجہ ہوتے ہیں۔ بہرحال اب آپ زیر بحث موضوع کے حوالے سے ایک اور خبر پڑھ لیجیے۔
’’چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہم ٹیلی ویژن چینلز کو بھارتی مواد دکھانے کی اجازت نہیں دے سکتے کیوں کہ یہ مواد ہماری تہذیب کو خراب کر رہا ہے۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس پاکستانی چینلوں پر بھارتی مواد دکھانے سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے دیے۔ سماعت کے دوران Film Asia کے وکیل نے کہا کہ Film Asia پروپیگنڈے نہیں کرتا مگر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ چینل بھارتی مواد دکھا کر ہماری تہذیب کو خراب کرتا ہے۔‘‘ (روزنامہ جنگ کراچی‘ 10 جنوری 2019)
اس خبر سے صاف ظاہر ہے کہ بھارتی فلموں اور ڈراموں کا معاملہ اتنا سنگین ہو چکا ہے کہ جسٹس ثاقب نثار جیسا لبرل جج بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ بھارت کا ثقافتی اور تفریحی مواد ہماری تہذیب و ثقافت کو برباد کرنے والا ہے۔
زیر بحث موضو ع کے اعتبار سے ہم کئی بار پاکستان کے ممتاز ڈراما نویسوں اور بھارت کے ممتاز اداکاروں اور گلوکاروں کے تنقیدی خیالات پیش کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کی ممتاز ڈراما نگار حسینہ معین کے اس انٹرویو کا بھی ذکر ہو چکا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اب پاکستان میں ڈراما خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس حوالے سے حسینہ معین کا ایک حالیہ انٹرویو بھی اہم ہے۔ اس انٹرویو میں حسینہ معین نے کیا کہا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
’’ہمارے ڈراموں میں زیادہ تر عورتوں پر ظلم و ستم دکھایا جاتا ہے اور روتی پیٹتی عورت پوری کہانی کا مرکز ہوتی ہے‘ اس کے علاوہ ایک نیا ٹرینڈ یہ چلا ہے کہ شادی کے دائرے سے باہر تعلقات یا Extra Marital affairs پر مبنی ڈرامے دکھائے جارہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ معاشرے میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اگر معاشرے میں ایسا ہو رہا ہے تو 20 فی صد طبقے میں ایسا ہوگا ہر جگہ ایسا نہیں ہے۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ 80 فی صد طبقے کو یہ دکھا کر جوش دلایا جاتا ہے کہ ایسا ہر جگہ ہو رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اتنی بولڈ کہانیاں دیکھ کر نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے۔ (اب لڑکیوں کے لیے) گھر سے بھاگ جانا بھی آسان ہے اور شادیوں پر شادیاں کرنا بھی سہل ہے۔ (بہرحال) اقدار کے منافی کہانیوں کو سختی سے چیک کرنے کی ضرورت ہے اس طرح ہماری تہذیب متاثر ہو رہی ہے۔‘‘ (روزنامہ جنگ یکم جنوری 2019ء)
اصغر ندیم سید بھی پاکستان کے ممتاز ڈراما نگار ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ وہ پاکستانی ڈراموں کے حوالے سے کیا کہہ رہے ہیں۔
’’اکثر ڈراموں میں ایسا ہوتا ہے کہ کہیں محبت ہو رہی ہے‘ کہیں بے وفائی ہے‘ کہیں دھوکا دیا جارہا ہے ماں باپ ’’ڈمی‘‘ بن گئے ہیں۔ یہ موضوعات اور یہ کہانیاں ہماری سوسائٹی کی عکاس نہیں۔ (روزنامہ جنگ‘ یکم جنو ری 2019ء)
ڈراموں کے ممتاز اداکار طلعت حسین نے کہا کہ ’’اس سلسلے میں میری ایک پرانی تھیوری یہ ہے کہ ڈراما یونان سے آیا ہے‘ ڈراما ہماری صنف نہیں‘ ہماری صنف شاعری ہے۔‘‘ (روزنامہ جنگ‘ یکم جنوری 2019)
ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ حسینہ معین کوئی مذہبی شخصیت نہیں مگر انہیں معلوم ہے کہ ہمارا مذہب کیا ہے‘ ہماری اخلاقی اقدار کیا ہیں‘ ہماری تہذیب کیا ہے چنانچہ انہیں ڈراموں میں دکھائے جانے والے ایسے مواد پر سخت تشویش ہے جو ہماری تہذیبی اقدار سے ہم آہنگ نہیں۔ معروف معنوں میں اصغر ندیم سید کا بھی کوئی ’’مذہبی تشخص‘‘ نہیں مگر انہیں بھی احساس ہے کہ ہمارا ڈراما اب ہمارے معاشرے کا عکاس نہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت ہو یہ رہا ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری ہالی ووڈ کی نقل کرر ہی ہے اور ہمارے فلم ساز اور ڈراما تخلیق کرنے والے بھارتی انڈسٹری اور بھارتی ڈراموں کی نقل کر رہے ہیں۔ اس طرح ہمارے چینلز اپنی اصل میں مغربی بنتے جارہے ہیں۔ یہ اتفاقی امر نہیں‘ پاکستان کے حکمرانوں اور ان کے مغربی آقاؤں کا ایجنڈا ہی یہ ہے۔ ایک اسلامی معاشرے کو سیکولر بنانے کے سلسلے میں فلم اور ٹیلی ویژن سے زیادہ مددگار کون ہو سکتا ہے؟ پاکستان کا کوئی سیاست دان سیکولر ازم کا نعرہ لگائے تو پورے معاشرے کے کان کھڑے ہو جائیں گے مگر تفریحی مواد ظاہری معنوں میں ’’بے چہرہ‘‘ یا Faceless ہوتا ہے‘ ایسے مواد کے ذریعے معاشرے کو سیکولر اور لبرل بھی بنایا جاسکتا ہے اور اس کا کوئی نوٹس بھی نہیں لیتا۔ اداکار طلعت حسین کا یہ کہنا غلط نہیں کہ ڈراما ہماری صنف نہیں اس لیے کہ ڈراما یونان سے آیا ہے مگر ان سے گزارش ہے کہ وہ ازراہ عنایت اسے ’’اپنی تھیوری‘‘ نہ کہیں۔ یہ بات ہمارے یہاں سب سے پہلے محمد حسن عسکری نے کہی۔ اس حوالے سے ان کا ایک مضمون ان کی کتاب ’’ستارہ یا بادبان‘‘ میں موجود ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے ’’ہمارے ہاں ڈراما کیوں نہیں؟‘‘ یہ ایک اہم مضمون ہے اور اس موضوع پر کسی دن انہی کالموں میں ضرور گفتگو ہوگی ان شاء اللہ۔ مگر یہاں کہنے کی اصل بات کچھ اور ہے۔
ویسے تو اسلامی معاشرے کی بقا و سلامتی اور اس کی روحانی و جسمانی صحت کے تحفظ کی ذمے داری ہر فرد پر عائد ہوتی ہے مگر اس سلسلے میں حکمرانوں، علما، دانش وروں اور مذہبی کہلانے والے طبقات کی ذمے داری سب سے زیادہ ہے۔ عجیب بات ہے کہ فلموں اور ڈراموں کے مواد پر ڈراما نگار اور اداکار بول رہے ہیں مگر علما‘ دانش ور اور مذہبی طبقات منہ پر چپ کا تالہ ڈالے بیٹھے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو ’’پیغام پاکستان‘‘ منظور کرانا ہوتا ہے تو دو ہزار سے زیادہ علماء دوڑے دوڑے اسلام آباد جاتے ہیں اور پیغام پاکستان پر مہر تصدیق ثبت کرکے آ جاتے ہیں مگر برسوں سے کروڑوں مسلمانوں کو تفریح کے نام پر ثقافتی زہر کھلا کر کروڑوں افراد کی روح‘ اخلاق اور تہذیب کو موت کی نیند سلایا جارہا ہے لیکن علما‘ دانش وروں اور مذہبی طبقات کو نہ کچھ نظر آرہا ہے نہ ان کے انفرادی اور اجتماعی وجود میں کوئی حرکت پیدا ہو رہی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ برائی کو طاقت سے روک دو‘ یہ ممکن نہ ہو تو زبان سے جہاد کرو‘ یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے دل میں برا خیال کرو‘ بدقسمتی سے علما‘ دانش ور اور مذہبی طبقات نہ تہذیبی و ثقافتی زہر کے سیلاب کو طاقت سے روک رہے ہیں نہ اس کے خلاف زبان کا ہتھیار استعمال کر رہے ہیں یہاں تک کہ یہ بات بھی کہیں رپورٹ نہیں ہو رہی کہ وہ اسے دل میں برا خیال کر رہا ہے۔ یہ کیسا سناٹا ہے بھائی؟ عربی کی ضرب المثل ہے مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پہلے معاشرے کے بالائی طبقات خراب ہوتے ہیں اور پھر عوام انہیں دیکھ کر بگڑتے ہیں ہماری تہذیب اور تاریخ بتاتی ہے کہ علما اور دانش ور ’’عزیمت‘‘ کی راہ کے راہی ہوتے ہیں اور عوام ’’رخصت‘‘ کی راہ کے مسافر ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ جب خواص عزیمت کی راہ چھوڑ دیتے ہیں تو پھر عوام رخصت کے مرتبے پر بھی فائز نہیں رہتے۔ پھر وہ ’’ضلالت‘‘ اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کی اس ’’ضلالت‘‘ کے اصل ذمے دار ’’خواص‘‘ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میدانِ حشر میں خواص کی جیسی پکڑ ہوگی ویسی پکڑ عوام کی نہیں ہوگی۔