کرنے کو کچھ نہیں ہے ؟

192

ویسے تو گزشتہ 5ماہ سے عوام کسی ایسی تبدیلی کے منتظر ہیں جس سے ان کے مسائل میں کمی نہ سہی، اضافہ نہ ہو لیکن تبدیلی کے دعویدار حکمرانوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں اور فی الوقت سرفہرست مسئلہ یہ ہے کہ سندھ کی حکومت کیسے تبدیل کی جائے۔ بہترتھا کہ پہلے اپنی حکومت کو سنبھالنے کی کوشش کی جاتی جو تنے ہوئے رسے پر چل رہی ہے اور بہت معمولی اکثریت سے قائم ہے اور یہ اکثریت بھی دوسروں کی مرہون منت ہے اور اِن ہاؤس تبدیلی کی بات کی جارہی ہے۔ عمرانی حکومت کو خود ان کے ساتھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ بات عمران خان بھی جانتے ہوں گے لیکن ان کو چھوٹ دینے کا مطلب ہے کہ وہ خود بھی یہی چاہتے ہیں کہ عوام گرما گرم بیانات اور جوابی بیانات میں الجھے رہیں۔شاید کرنے کو کوئی کام نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں اہم مسئلہ یہ رہا کہ ای سی ایل میں ڈالے گئے 172 افراد میں سے کس کا نام نکالا جائے اور کس کا نہیں۔ حکومت نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیے تھے جس پر پیپلز پارٹی چراغ پا تھی۔ حکمرانوں نے بھی اس معاملے کو انا کا مسئلہ بنا لیا ۔ عدالت عظمیٰ نے ان کا نام نکالنے کا حکم دیا تو اس پر فوری عمل کے بجائے تحریری فیصلے تک عمل کرنے سے انکار کردیا۔ آخر تحریری فیصلہ بھی آگیا تو جمعرات کو کابینہ یہ نام نکالنے کی منظوری دی لیکن یہ بھی کہہ دیا کہ عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کریں گے۔ گویا لڑائی جاری رہے گی۔ حکومت اور حزب اختلاف میں لڑائی تو سیاست کا حصہ ہے لیکن لڑائی کی کوئی بنیاد ضرور ہونی چاہیے۔ مراد علی شاہ نے تو چیلنج کردیاتھا کہ مجھے کربلا جانا ہوا تو دیکھتا ہوں کون روکتا ہے۔ لیکن مراد علی شاہ اپنے صوبے کو کرب و بلا سے تو نکالیں۔ نیب نے ان پر جو الزامات لگائے ہیں وہ سب غلط تو نہیں ہوں گے لیکن ان کی تحقیقات کر کے الزامات کو ثابت کرنا کس کی ذمے داری ہے؟ بلاول کو تو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے معصوم قرار دے دیا ہے مگر آصف علی زرداری کے پاس اپنے وسیع ترین اثاثوں کی منی ٹریل نہیں ہے۔ وہ ایک اوسط آمدنی رکھنے والے شخص حاکم علی کے بیٹے ہیں جن کے پاس نہ تو کوئی جاگیر تھی نہ لمبا چوڑا کاروبار۔ انہیں بتانا چاہیے کہ وہ اچانک کھرب پتی کیسے ہوگئے۔ اصل بات یہ ہے کہ الزامات کو ثابت کیا جائے جس کے بعد نام ای سی ایل میں ڈالنے کے بجائے مقدمہ چلایا جائے۔