شیطان کو سجدہ

232

بچے پھولوں کا گیت ہیں۔ سر بفلک پہاڑوں، چاند ستاروں، خوش نما پھولوں، رنگین تتلیوں، تصویروں اور حسین چہروں کو جس سرشاری سے بچے دیکھتے ہیں یہ مناظر بھی بچوں کو اسی خوشی سے دیکھتے ہیں، ان سے زندگی کا احساس لیتے ہیں۔ بچے دنیا کے بارے میں عظیم آسمانی منصوبے کا حصہ ہیں۔ بچے ہماری میراث، ہمارااثاثہ ہیں۔ شیطان ہمیں اکساتا ہے کہ ہم ظلم کریں، بے رحمی کریں۔ بچوں کو دنیا میں آنے سے روکیں۔ یہ وہ بدترین ظلم ہے جو شیطان ہم سے چاہتا ہے۔ زیادہ بچے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آگے سجدہ ریزی ہے۔ اللہ کے اس فرمان پر یقین کی علامت: ’’اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خیال سے قتل مت کرو۔ ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔ روئے زمین پر چلنے والے جتنے جاندار ہیں ان کا رزق اللہ کے ذمہ ہے‘‘۔
جو خالق اتنی بڑی کائنات تخلیق کرسکتا ہے کیا اسے ہی یہ علم نہ ہوگا کہ 2019 اور اس کے بعد کے ادوار میں انسانی ضروریات کتنی ہوں گی اور انہیں کیسے پورا کرنا ہے۔ وہ جو کہتا ہے ’’میں سب سے بڑا منصوبہ بنانے والا ہوں‘‘ وہ خاندانی منصوبہ بندی کی ان کوششوں پر کیسے ہنستا ہوگا۔ ہزاروں برس سے یہ دنیا آباد ہے۔ کھربوں انسان آئے اور چلے گئے، کیا وہ بھوکے مرگئے تھے جو اب مرجائیں گے۔ کبھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے خزانے کم ہوئے ہیں جواب ہوجائیں گے۔
کم بچوں کی کوشش شیطان کو سجدہ ہے۔ آدم ؑ اور نسل آدم ؑ کے خلاف جس کی جنگ شدت سے جاری ہے۔ انسان جلد باز ہے۔ خوف وہراس اس کی کمزوری ہے۔ زیادہ بچوں کی تعداد سے اسے ڈرایا جاتا ہے تو شیطان شہ دیتا ہے، تنگی اور خوف کا وسوسہ ڈالتا ہے۔ یوں ربّ کائنات کے خالق اور مالک ہونے کے عقیدے پر ضرب لگا کر انسان کو اپنا قیدی بنا لیتا ہے۔ زیادہ بچے والدین اور گھروں کی برکت ہیں۔ وہ جن کے ایک دو بچے ہیں، اگر کسی حادثے کا شکار ہوجائیں، نافرمان نکل جائیں تو پھر تنہا والدین کہاں جائیں گے، کیا کریں گے۔ جن والدین کے زیادہ بچے ہوتے ہیں ان کا بڑھاپا عشرت میں گزرتا ہے۔ آج اِس بچے کے گھر مہمان، کل اُس بچے کے گھر مہمان، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں میں گھرے ہوئے۔
یہ بچوں پر ظلم کا بدترین دور ہے۔ ہلاکو اور چنگیز خان بچوں کو سنگینوں میں پروتے تھے۔ آج کی مہذب دنیا ماں کے پیٹ ہی میں انہیں قتل کررہی ہے، ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں روزانہ۔ نہ جانے کون کون سے نشتران کے بدن میں چبھوکر، کون کون سے زہر ان کے رگ وپے میں اتار کر۔ اس پر جواز غربت، افلاس، پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو جیسے پُر فریب نعرے۔ کل کہیں گے جب سنبھال نہیں سکتے تو پالتے کیوں ہو۔
بچے کم پیدا کرنے کے لیے وضع کیے گئے دلائل، میڈیا ہاؤسز سے فیملی پلاننگ کے قصیدے، اشتہار، ٹاک شوز، پروگرامز اور سیمیناروں میں کی گئی تقریریں مسلمانوں کی اکثریت غلاظت کے ڈھیروں پر پھینک دیتی ہے جب اللہ کی آخری کتاب انہیں آگاہ کرتی ہے: ’’زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمے نہ لے رکھا ہو۔ وہ اس کے مستقل ٹھکانے کو بھی جانتا ہے اور عارضی ٹھکانے کو بھی (ھود: ۶)‘‘ اور جب اس مقام سے جو آسمان کے نیچے ایک بہت ہی ادب والا مقام ہے، جو عرش سے بھی نازک ہے، جہاں جنید اور بایزید جیسی ہستیاں اپنا سانس روکے ہوئے آتی ہیں اس مقام ادب سے یہ فرمان جاری ہوتا ہے ’زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے نکاح کرو کیوں کہ میں کل قیامت میں تم لوگوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔‘‘ تو پھر کون مسلمان خاندانی منصوبہ بندی کی بکواس پر عمل کرے گا۔
کہا جاتا ہے کہ نسل انسانی کے کم ہونے سے وسائل پر بوجھ کم ہو جاتا ہے۔ مہنگائی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے تو کئی ماہ سے فرانس میں مہنگائی کے خلاف پُر تشدد احتجاج کیوں جاری ہے۔ بچے کم پیدا کرنا تو ایک طرف جہاں لوگ بچے پیدا کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ وہاں تو نسل انسانی وسائل پر بوجھ نہیں ہے۔ پھر مہنگائی اور وہ بھی ایسی مہنگائی کیوں ہے کہ لوگ بلبلا کر گھروں سے باہر نکل آئے ہیں۔ امریکا میں occupy wall street کی تحریک نے کیوں جنم لیا تھا۔ کیوں یہ تحریک یورپ کے دیگر ممالک تک پھیل گئی تھی۔ کیوں انتہائی وحشیانہ طاقت سے اگر کچلا نہ جاتا تو یہ تحریک پورے یورپ میں آگ لگا دیتی۔ امریکا اور یورپ میں تو بچے منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیے جاتے ہیں پھر کیوں وہاں ایسی تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ مسئلہ وسائل کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی کا نہیں ہے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا ہے۔ وہ تقسیم جس نے دولت کو اکثریت کے ہاتھوں سے چھین کر دنیا کے چند امیر ہاتھوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کو خواتین کی صحت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اسلام میں خواتین کی صحت اور جان کو لاحق خطرات کی صورت میں خاندانی منصوبہ بندی کی اجازت ہے مگر انفرادی سطح پر۔ کیس ٹو کیس۔ با امر مجبوری۔ اسے تحریک بنا کر معاشرے پر ٹھونسا نہیں جاسکتا۔ کیوں کہ یہ تحریک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفت رزاقیت کا انکار ہے۔ ان تحریکوں کا مقصد مالی منفعت اور اربوں کھربوں روپے کی اس صنعت کا فروغ ہے جو مانع حمل ادویات اور آلات تیار کرتی ہیں۔ مانع حمل ادویات اور طریقوں نے عورتوں کی زندگی کو جہنم بنادیا ہے۔ انہیں چلتی پھرتی لاشیں بنادیا ہے۔ خطرناک امراض میں مبتلا کردیا ہے۔ حرام کاری اور فحاشی کا دروازہ کھول دیا ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان عورتوں ہی کو ہوتا ہے۔ عورت جس طرح آج بازار کی جنس ہے شاید ہی کسی بھی زمانے میں رہی ہو۔
خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک کا آغاز اٹھارویں صد ی کے اواخر میں یورپ میں ہوا۔ اس کا محرک برطانیہ کا مشہور ماہر معاشیات مالتھس تھا۔ اس نے حساب لگایا تھا کہ اگر نسل انسانی اسی طرح اپنی فطری رفتار سے بڑھتی رہی تو زمین انسان کے لیے تنگ پڑجائے گی۔ یہ تحریک ایک عالمی تحریک اس وقت بنی جب امریکا کے وزیر خارجہ جان مارشل نے 1947ء میں دنیا کی آبادی کم کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ وہ دراصل مسلمانوں کی بڑی آبادی سے پریشان تھا۔ اس منصوبے سے اس کا اصل مقصد مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کی کوشش کرنا تھا، لیکن جو اصل ہدف تھے یعنی مسلمان وہ تو اس مغربی سازش سے اس قدر متاثر نہ ہوئے۔ لیکن مغرب کو اس نظریے نے اس طرح برباد کیا کہ آج ترقی یافتہ ممالک اپنی تہذیبوں کے خاتمے کے خوف میں مبتلا ہیں۔
دنیا کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی بھی تہذیب کو زندہ رکھنا ہے تو اسے اگلے پچیس سال تک اپنی آبادی میں اضافے کی شرح کو اس طرح برقرار رکھنا ہے کہ ہر خاندان میں اوسطاً 2.11 شرح پیدائش برقرار رہے۔ اگر یہ شرح کم ہوکر 1.9 پر آجائے تو خطرہ اور اگر 1.3 پر آجائے تو ایسی تہذیب دنیا سے نیست ونابود ہوجاتی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ فرانس کی موجودہ شرح پیدائش 1.8 فی صد ہے، انگلینڈ کی 1.6 یونان کی 1.3 اٹلی کی 1.2 اور اسپین کی 1.1 فی صد ہے۔ اسی طرح یورپی یونین کے 31ممالک کی شرح پیدائش 1.38 فی صد ہے۔ یہ وہ شرح افزائش ہے جس کی موجودگی میں قومیں فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔
غربت کے خاتمے کے لیے بچوں کا قتل عقل مندی نہیں تہذیب جدید کی درندگی ہے اس سطحی حل کے بجائے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ غریب اور امیر کے درمیان بڑھتی ہوئی لکیر کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ وسائل کی کھوج اور ان کی منصفانہ تقسیم کی ضرورت ہے۔ انصاف پسند اور درد مند حکمرانوں کی ضرورت ہے جو مغرب کے پروپیگنڈے کا شکار ہونے کے بجائے درد مندی سے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔