طالبان سے مذاکرات اور جنگ کی دھمکی

186

افغانستان کے لیے امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد بھارت اور افغانستان کا دورہ کرکے پاکستان تشریف لائے ہیں اور بظاہر وہ افغانستان کے مسئلے کا امریکی حل تلاش کر رہے ہیں۔ گزشتہ بدھ کو کابل میں اور پھر جمعرات کو بھی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے موصوف نے دھمکی دی ہے کہ طالبان جنگ سے باز نہ آئے تو ہم بھی تیار ہیں، مذاکرات کی ایک اور کوشش کریں گے۔ مصالحتی عمل اور مذاکرات کی دعوت دینے والے جنگ کی دھمکیاں نہیں دیتے اور زلمے خلیل زاد یہ بھی پیش نظر رکھیں کہ وہ کس قوم کو جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں۔ گزشتہ 17 برس سے 40 ممالک کی فوج لے کر افغانستان پر چڑھائی کرنے والے امریکا کو کیا اب تک یہ اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کس کو دھمکی دے رہا ہے۔ زلمے کہتے ہیں کہ ہم، یعنی امریکا بھی جنگ کے لیے تیار ہے تو گزشتہ 17 برس سے کیا ہو رہا ہے اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکا بے بس ہو کر مذاکرات کی کوشش کررہا ہے۔ بصورت دیگر یہ عالمی دہشت گرد ہر گز بھی مذاکرات کی بات نہ کرتا۔ طالبان مذاکرات ضرور کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنی شرائط پر۔ ان کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ افغان کٹھ پتلی حکومت سے مذاکرا ت نہیں کریں گے جب کہ زلمے خلیل زاد نے گزشتہ بدھ کو کابل میں اعلان کیا تھا کہ امریکا کابل انتظامیہ کے ساتھ کھڑا ہے۔ پھر بات کیسے آگے بڑھے گی۔ اسی اثنا میں امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان میں متعین 14 ہزار امریکی فوجیوں میں کمی کرنے سے انکار کردیا تھا لیکن پنٹاگون کے ترجمان نے اس کے برعکس بات کی ہے۔ پاکستان کی قیادت نے کہا تھا کہ اب ہم کرائے کی بندوق نہیں بنیں گے۔ یعنی اب بغیر کرایہ لیے کام ہوگا کیونکہ ٹرمپ پہلے ہی پاکستان پر متعدد الزامات لگا کر امداد روک چکے ہیں، پھر بھی پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات میں شریک کرنے کے لیے دباؤ ڈالے جب کہ طالبان پاکستان کے دباؤ میں نہیں ہیں۔ تاہم افغانستان میں امن پاکستان میں امن سے منسلک ہے اس لیے پاکستان، امریکا۔طالبان مذاکرات کی بحالی کی کوشش کررہا ہے اور جنرل باجوہ نے زلمے خلیل زاد کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ گزشتہ جمعرات کو افغان صدر سعید غنی اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان میں ٹیلی فونک گفتگو بھی ہوئی ہے جس میں تمام مسائل کے حل پر اتفاق کیا گیا ہے۔ لیکن یہ مسائل امریکا ہی کے پیدا کردہ ہیں اور افغانستان میں اس کی موجودگی تک حل نہیں ہوں گے۔ افغان عوام تو 1979ء سے بیرونی جارحیتوں کے خلاف نبردآزما ہیں۔ ایسی قوم کو جنگ جاری رکھنے کی دھمکی دینا حماقت کے سوا کیا ہے۔ اصل مسئلہ تو پاکستان کی عسکری اور سول قیادت کا ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں، کیا اس امریکا کے ساتھ جو پوری امت مسلمہ کا دشمن ہے اور مظلوم فلسطینیوں کے مقابلے میں یہودیوں کے ساتھ کھڑا ہے جو عیسائیت کے دشمن بھی ہیں۔ امریکا طالبان مذاکرات میں پاکستان کا سہولت کار کا کردار امریکا کو افغانستان میں رسوائی اور ہزیمت سے بچانے کی کوشش ہے۔ امریکا کو اس وقت ایک سیاسی ڈیل کی ضرورت ہے اور وہ مستقل طور پر افغانستان پر قابض رہنا چاہتا ہے اور بھارت کو افغانستان میں داخل کر کے پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی مفادات پاکستان اور مجاہد طالبان کے مفادات نہیں ہیں۔