این آر او کی بازگشت کیوں، سختیاں کس کے لیے؟ 

440

این آر او جو مخفف ہے نیشنل ری کنسیلیشن آرڈیننس (National Reconciliation Ordinance) کا۔ اس کی بازگشت 2017 میں پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے امکانات ہی سے شروع ہوچکی تھی۔ تاہم اس حوالے سے اپوزیشن کے کسی رہنما نے کھل کر اس کی طلب کا اظہار اب تک نہیں کیا ہے۔ عام لوگ یہ جاننا چاہیں گے کہ یہ این آر او کیا ہے؟ اس سے کس کو کتنا فائدہ پہنچا تھا اور کیوں انہیں یہ رعایت دی گئی تھی۔
وکی پیڈیا کے مطابق قومی مفاہمتی فرمان 2007ء (این آر او) اس صدارتی فرمان کو کہتے ہیں جو پرویز مشرف نے امریکی ایماء پر بینظیر بھٹو سے سیاسی مفاہمت ممکن بنانے کے لیے جاری کیا تھا اس قانون کے مطابق یکم جنوری 1986ء سے 12 اکتوبر 1999ء کے دوران مالی لوٹ کھسوٹ میں ملوث سیاست دانوں (جن میں بینظیر اور زرداری سر فہرست تھے) کو حکومت ’’قومی مفاہمت‘‘ کے جذبہ کے تحت معاف کر سکے۔ اس مفاہمت کے حکم نامے کا سب سے بڑا فائدہ آصف علی زرداری اور بینظیر بھٹو خاندان کو ہوا تھا ان پر تمام مالی لوٹ کھسوٹ کے مقدمات حکومت پاکستان نے واپس لے لیے۔ ’’مفاہمت‘‘ کا یہ ہتھکنڈا جنوبی افریقا کی سیاست سے مستعار لیا گیا تھا جس میں سیاہ فام حکومت نے سابقہ گورے حکمرانون کے ظلم معاف کر دیے تھے۔ اکتوبر 2009ء میں جب آصف علی زرداری صدر مملکت تھے، ان کے اس دور میں اس آرڈیننس کو پارلیمان کے سامنے پیش کر کے قانونی منظوری کا اہتمام کیا جانے لگا جس کے خلاف حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن نے رائے عامہ ہموار کرنے کا بیان دیا۔ اس ردعمل اور عوامی اور سیاسی مخالفت کے پیش نظر حکومت نے اس قانون کا مسودہ پارلیمان سے منظوری کے لیے پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم اس قانون سے کم و بیش 8 ہزار سیاسی اور غیر سیاسی بااثر افراد نے فائدہ اٹھایا تھا۔ اس لیے عام خیال یہی ہے کہ سخت احتسابی عمل کے دوران صرف این آر او کے ذریعے ’’قومی لٹیروں‘‘ کو ریلیف مل سکتا ہے۔ مگر کیا این آر او دوبارہ لایا جائے گا۔ اگرچہ پھر این آر او کے امکانات بہت معدوم ہیں مگر یہ ممکن ہے کہ اس بار کوئی ایسا مفاہمتی آرڈیننس کسی اور عنوان سے لایا جائے گا جس میں مخصوص افراد کو تو ریلیف مل جائے گا مگر سیاست کی آڑ میں مسلسل لوٹ مار کرنے والے لوگ کسی طور بچ نہیں سکیں گے۔ اس لیے این آر او کی باتیں مخالفت اور حمایت میں زور شور سے ہونے لگیں۔
عمران خان نے سب سے پہلے این آر او کا ذکر اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کیا تھا جس پر ہر طرف سے یہ جواب آیا تھا کہ ’’عمران خان بتائیں کہ این آر او کس نے مانگا ہے؟‘‘۔ جبکہ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری نے کہا کہ ’’این آر او مانگا اور نہ ہمیں چاہیے، عمران خان خود ایوان میں آتے نہیں، ان کو کیا پتا پارلیمان میں کیا ہورہا ہے، عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پہلے وزیراعظم ہوں گے جو ہر بدھ کو آکر اپوزیشن کے سوالات کے جواب دیں گے‘ ان کا یہ دعویٰ بھی جھوٹا نکلا‘‘۔ لیکن یہ سمجھنا آسان نہیں ہے کہ جب کسی نے قومی مفاہمتی آرڈیننس کی خواہش کی ہی نہیں تھی تو وزیر اعظم عمران نے یہ بات کس بنیاد پر کہی تھی؟۔ یقیناًاس جملے کو وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں نکالا تھا تو اس کی پشت پر کوئی ’’اسکرپٹ‘‘ یا پھر ذہنی اختراع ضرور ہوگی۔ واقف حال لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کو ان کے چند قریبی افراد نے یہ یقین دلایا ہوگا کہ اپوزیشن کے بااثر اور اہم لوگ این آر او چاہتے ہیں اور سب پر وہ مذاکرات بھی کرنا چاہتے ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وزیراعظم نے برملا این آر او کی باتیں کی تھیں۔
اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ وفاقی کابینہ کا بلاول زرداری اور مراد علی شاہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام خارج کرنے کا فیصلہ بھی این آر او کی طرح ان دونوں شخصیات کو ریلیف دینے ہی کا تو ہے! خیال رہے کہ وفاقی کابینہ نے عدالت عظمیٰ کے احکامات پر وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور بلاول زرداری کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی منظوری دے دی۔ اس ضمن میں معاون خصوصی برائے وزیراعظم شہزاد اکبر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ دونوں کا نام عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق نکال دیا جائے گا، تاہم نیب کی جانب سے دوبارہ درخواست آنے پر میرٹ پر اسے دیکھیں گے۔ بہرحال عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کرکے حکومت نے بلاول زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے لیے آسانیاں پیدا کردی ہے۔
اب اہم امر یہ ہے کہ کیا واقعی بلاول زرداری اور مراد علی شاہ کا نام ’’جلد بازی‘‘ میں شامل ہوگیا تھا؟ یا یہ عمل بھی ’’سیاسی‘‘ تھا۔ اگر یہ بات درست تسلیم کرلی جائے تو یقین کرنا پڑے گا کہ حکومت این آر او تو نہیں دے گی بلکہ جعلی اکاؤنٹس اور دیگر الزامات میں ملوث آصف زرداری اور ان کے قریبی دوستوں کے خلاف سخت کارروائیاں جاری رکھے گی جس کے تحت انہیں سزا بھی ہوسکتی ہے۔ پھر ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ قومی مفاہمتی آرڈیننس کی بازگشت کی شدت کا مقصد یہی تو نہیں کہ مفاہمت کا یہ عمل اس بار مشروط ہو؟ مطلب کریمنل کیسز میں ملوث کسی بھی لیڈر کو اس بار چھوٹ نہیں دی جائے گی۔ مطلب میاں نواز شریف، شہباز شریف مجرم قرار پائے تو مجرم قرار پانے کے باوجود آصف زرداری کس طرح قانون کے شکنجے سے بچ سکیں گے؟۔