انسان اور حسن و جمال 

927

انسان صرف روحانی اور اخلاقی وجود نہیں ہے بلکہ وہ ایک جمالیاتی حقیقت بھی ہے۔ لیکن اسلام کے دائرے میں جمالیات کو انسان تک محدود کرنا ٹھیک نہیں۔ اس لیے کہ قرآن مجید فرقان حمید کہتا ہے کہ اللہ زمین و آسمان کا نور ہے۔ یعنی یہ پوری کائنات حق تعالیٰ کے جمال کا ایک مظہر ہے۔ لیکن چوں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اس لیے وہ حسن و جمال کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ زندگی کا مشاہدہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ ہر جمال میں ایک کمال ہوتا ہے اور ہر کمال میں ایک جمال ہوتا ہے اور جس چیز میں جمال اور کمال جمع ہوجاتے ہیں وہ بے مثال ہوجاتی ہے۔ مگر جمال صرف ظاہر میں نہیں ہوتا باطن میں بھی ہوتا ہے باطن کا جمال ہی اصل جمال ہے اس لیے کہ زندگی فکر و عمل کے حسن سے زندگی بنتی ہے لیکن خارج میں موجود حسن وجمال کا اثر باطن پر بھی پڑتا ہے اور باطن کا حسن و جمال ظاہر کو متاثر کرتا ہے۔
بدقسمتی سے اب مسلمان اپنے مذہب اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کو جمالیاتی اعتبار سے دیکھتے ہی نہیں ہیں۔ بلاشبہ قرآن بنیادی طور پر کتاب ہدایت ہے مگر غور سے دیکھا جائے تو قرآن ‘‘کتاب جمال‘‘ بھی ہے۔ وہ کتاب جو انسان کی زندگی کو باطل سے جدا کرکے اسے ’’حق مرکز‘‘ بناتی ہے اس سے زیادہ حسن و جمال کس کتاب میں ہوگا۔ اس لیے کہ حق جمیل ہے اور باطل اس کے مقابلے پر بدصورت بھی ہے اور بد سیرت بھی۔ یہاں ہمیں آنندکمار سوامی کی معرکہ آرا تصنیف Figure of speech or Figure of Thought یاد آگئی۔ اس کتاب میں آنند کمار سوامی نے کہا ہے کہ کائنات کی ہر شے میں جمال ہے یہاں تک کے شیطان میں بھی ایک جمال ہے ایسا نہ ہوتا تو پوری کائنات فنا ہوجاتی ہے لیکن یہ فرق بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ حق سورج کی طرح ہے اور باطل اس کے مقابلے پر ایک ذرے کی طرح۔ مگر یہاں سوال ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید کتاب جمال کن معنوں میں ہے؟ ذرا قرآن مجید کے چند بیانات پر نظر ڈالیے۔
(1) اے فرزندانِ آدم ہر نماز کے وقت اپنی ’’زینت‘‘ اختیار کرلیا کرو (3:17)
(2) تمہاری صورت گری کی تو ’’حسین صورتیں‘‘ بخشیں (3:54)
(3) ان کے ساتھ مباحثہ کرنا ہو تو ’’خوبصورت ترین طریقہ‘‘ اختیار کرو۔ (125:4)
(4) کون ہے جو اللہ کو ’’حسین قرض‘‘ دے۔ (245:2)
(5) کیا تمہارے رب نے تم سے ’’حسین وعدہ‘‘ نہیں کیا ہے۔ (86:20)
(6) ’’حسین صبر‘‘ سے کام لو۔ (5:70)
(7) تاکہ وہ اہل ایمان کو جنگ کی ’’حسین آزمائش‘‘ میں ڈالے۔ (17:8)
(8) حتیٰ کہ قرآن مجید میں چوپایوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے ’’تمہارے لیے ان کے اندر شام کو لوٹاتے وقت اور صبح کو لے جاتے وقت ایک ’’جمال‘‘ ہوتا ہے۔
ان آیات مبارکہ کو دیکھا جائے تو اسلام کے دائرے میں عبادت کیا جنگ اور چوپایوں کی آمد و رفت میں بھی ایک جمال ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ رسول اکرمؐ میدانِ جنگ میں دادِ شجاعت دیتے تھے تو اس مقام پر جہاں سب سے زیادہ خطرہ ہوتا تھا۔ بلاشبہ یہ آپؐ کی عظیم شجاعت تھی مگر اس شجاعت میں ایک جمال ہے۔ غزوہ بدر میں 313 لوگوں کو ایک ہزار کے لشکر جراّر کے سامنے کھڑا کردیا گیا اس میں بھی ایک حسن ایک جمال ہے اس لیے کہ طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے مسلمانوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ ان کے دل میں تردد بھی پیدا نہ ہوا۔ اس طرزِ عمل میں ایک وقار ہے اور وقار میں ایک جمال ہے، ایک خوبصورتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدری صحابہ کو دیگر صحابہ پر فوقیت حاصل ہے۔ مسلمانوں کی جمالیاتی روایات بعد کے زمانوں میں بھی میدان کار زار کو جمیل بناتی رہی ہے۔ طارق بن زیاد اسپین پہنچے تو انہوں نے اپنی کشتیاں جلادیں۔ یہ صرف بہادری نہیں تھی ’’حسین بہادری‘‘ تھی۔ نائن الیون کے بعد ملا عمر نے وقت کی واحد سپر پاور امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طاقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا۔ یہ صرف انکار نہیں تھا یہ ’’جمیل انکار‘‘ تھا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طاقت کے مقابلے پر طالبان کی طاقت کچھ بھی نہ تھی مگر سوال حق کی پاسداری یا اس سے غداری کا تھا اور ملا عمر نے حق کی پاسداری کی اور امریکا کو بتادیا مسلمان کو مارا جاسکتا ہے مگر وہ ایمان فروشی نہیں کرسکتا۔ ملا عمر کے عمل کے جمال کا اندازہ اقبال کے اس شعر سے کیا جاسکتا ہے۔
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تُو احکام حق سے نہ کر بے وفائی
ملا عمر نے ملک ہاتھوں سے جانے دیا مگر احکام حق سے بے وفائی گوارا نہ کی۔ اس فکر اور اس عمل میں صرف معنی نہیں ہیں اس میں ایک جمال بھی ہے۔
دنیا کی دوسری مذہبی روایتوں میں بھی جمال کا مسئلہ اہم ہے۔ ہندو ازم کہتا ہے۔
’’ستیّم شِوم سندرم‘‘
یعنی صداقت ہی شِو ہے اور شِو ہی خوبصورت ہے۔ ہندوازم میں دیوتا کا درجہ رکھنے والے شری کرشن کے بارے میں آیا ہے کہ انہوں نے بچپن میں چودھویں کا چاند دیکھ کر اسے کھلونا سمجھا اور اپنی ماں یشودھا سے کہا کہ مجھے کھیلنے کے لیے چاند چاہیے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند کا قصہ یہیں سے آیا ہے۔ ہندو روایت کے مطابق کرشن کی 11 ہزار سے زیادہ بیویاں تھیں۔ ان معاملات کو بھی جمال کی روایت سے منسلک کیا جاتا ہے۔
جان کیٹس انگریزی کے پانچ عظیم رومانوی شعرا میں سے ایک ہے۔ اس نے کہا ہے۔
Truth is beauty and beauty is truth.
یعنی صداقت حسن ہے اور حُسن صداقت ہے۔ اس کی مشہورِ زمانہ نظم Endymion کے مصرعے یہ ہیں۔
A thing of beauty is a joy for ever:
Its loveliness increases
it will never
Pass into nothingness; but still will keep
ترجمہ: ایک حسین شے
دائمی مسرت ہے
اس کی دلکشی بڑھتی چلی جاتی ہے
اور وہ کبھی عدم کا شکار نہیں ہوتی
بلکہ برقرار رہتی ہے
شیکسپیئر کے معاصر کرسٹوفر ماریو کا ہمیشہ زندہ رہنے والا فقرہ بھی سن لیجیے۔ یہ فقرہ غلط طور پر شیکسپیئر سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مارلو نے ہیلن آف ٹرائے کے حُسن کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے۔
was this the face that
launded a thausand ships.
کیا یہی وہ چہرہ ہے جس نے ایک ہزار بحری جہازوں کو سمندر میں اُتارا۔ اس فقرے کا پس منظر یہ ہے کہ ہیلن آف ٹرائے کو حریف ریاست ٹروجن کے بادشاہ کا بیٹا لے اُڑا۔ چناں چہ ٹرائے کے بادشاہ نے ہیلن کی واپسی کے لیے ٹروجن پر حملے کے لیے عسکری مہم روانہ کی اور ایک ہزار بحری جہازوں کو فوجیوں سے بھر کر ٹروجن روانہ کیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ تاریخی واقعہ ہے۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ صرف ایک Mythہے۔ لیکن جو بھی کچھ ہو مارلو نے ہیلن کے حوالے سے ایک بے مثال فقرہ خلق کردیا۔ ایسا فقرہ جس پر جمال کا سایہ ہے۔
اردو غزل کی روایت حسن و جمال کے تذکرے سے بھری ہوئی ہے۔ اس میں ظاہری جمال کا ذکر بھی ہے۔ باطنی حُسن کی جھلکیاں بھی ہیں اور کائناتی حسن کے حوالے بھی ہیں۔ میر نے کہا ہے۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نُور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
………
سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے، ٹیڑھے، تیکھے، ترچھے سب کا تجھ کو امام کیا
ان تمام شعروں کی پشت پر ایک ’’تصورِ جمال‘‘ اور ’’احساس حسن‘‘ موجود ہے۔ اب ذرا غالب کے شعر ملاحظہ کیجیے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہوگئیں
………
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اقبال کی شعری کائنات میں حسن و جمال کا تذکرہ اس طرح ہوا ہے۔
قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں
حسن ازل کی ہے نمود چاک ہے پردۂ وجود
دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں
شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنید و بایذید تیرا جمال بے نقاب
………
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن
………
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
یہاں ہمیں جوش ملیح آبادی کا ایک شعر بھی یاد آرہا ہے۔ شعر یہ ہے
ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
اس شعر کو اگر اس طرح کردیا جائے تو یہ اور بھی بامعنی ہوجاتا ہے۔
جہاں میں اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
اب اردو غزل کی روایت سے کچھ اور اشعار
تم لوگ بھی غضب ہو کہ دل پر یہ اختیار
شب موم کرلیا سحر آہن بنا لیا
(شیفتہ)
………
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
(فانی)
………
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
(جلیل مانک پوری)
یہاں سوال یہ ہے کہ حسن و جمال کا مشاہدہ، تجربہ یا مطالعہ انسان پر اور کیا کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟ مغرب کے معروف فلسفی مِل کے بارے میں ہم نے ایک بار کہیں پڑھا تھا کہ وہ نوجوانی میں زندگی سے اتنا بے زار ہوا کہ اس نے دریا میں ڈوب کر خودکشی کرنے کا فیصلہ کرلیا مگر وہ دریا پر جاتے ہوئے ورڈز ورتھ کی شعری کلیات بھی اپنے ساتھ لے گیا، دریا کے کنارے پہنچ کر اس نے سوچا مرنا تو ہے ہی مگر مرنے سے پہلے ورڈز ورتھ کی کچھ نظمیں پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر نظمیں پڑھ کر مِل کی کیفیت بدل گئی اور اس نے خودکشی کا ارادہ ترک کردیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جدید اردو غزل میں ایک شعر مِل کی کیفیت سے ملتا جلتا موجود ہے۔
شعر یہ ہے۔
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھو کہ اس میں ڈوب جاؤں
جو لوگ بہتے پانی کی خوبصورتی سے آگاہ ہیں انہیں معلوم ہوگیا ہوگا کہ اس شعر میں کیا مسئلہ موجود ہے۔ شاعر خودکشی کی نیت ہی سے دریا پر آیا تھا مگر بہتے ہوئے پانی کی خوبصورتی نے اسے تذبذب میں مبتلا کردیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں فلسفے کے استاد ای لین اسکیری سے جب پوچھا گیا کہ حسن و جمال کا مشاہدہ اور تجربہ انسان میں کیسے تاثرات پیدا کرتا ہے تو انہوں نے کہا حسن انسان میں فیاضی، شکر گزاری، برداشت اور انصاف کے جذبے کو اُبھارتا ہے۔ حسن و جمال کا مشاہدہ اور تجربہ انسان میں جوش اور ولولہ پیدا کرتا ہے اور انسان کی توانائی کی سطح کو بڑھا دیتا ہے۔ 1924ء میں ماونٹ ایورسٹ کو سر کرنے کی کوشش میں ہلاک ہوجانے والے کوہ پیما جارج میلوری سے جب پوچھا گیا کہ آخر وہ ایورسٹ کو کیوں فتح کرنا چاہتا ہے تو اس نے کہا Because it is there۔ جنہوں نے ایورسٹ کی تصاویر بھی دیکھی ہیں انہیں معلوم ہے کہ ایورسٹ کا حسن انسان پر سحر طاری کرنے والا ہے۔ حسن و جمال کی طاقت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ پروانہ شمع کے حسن پر فدا ہوجاتا ہے۔ چکور چاند کی محبت میں خود کو ہلاک کرلیتا ہے اور چودھویں کا چاند سمندر میں جوش پیدا کردیتا ہے۔ ہمارا ایک شعر ہے۔
چودھویں رات کا مہتاب ہے چہرہ اُس کا
جو نکلتا ہے خِرد کو بھی جنوں کرتا ہوا