پروٹوکول کی لعنت برقرار ہے

414

گزشتہ دنوں پنجاب کے نہایت سادہ مزاج وزیراعلیٰ جناب عثمان بزدار اپنی سلطنت کا جائزہ لینے نکلے تو ملتان کے نشتر اسپتال بھی پہنچے۔ چونکہ وزیراعظم عمران خان اعلان کرچکے ہیں کہ حکمرانوں کا پروٹوکول بہت کم ہوگا اور ’’روٹ‘‘ نہیں لگایا جائے گا یعنی راستے بند نہیں ہوں گے۔ چنانچہ وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ صرف 20 گاڑیاں تھیں اور ان کی اسپتال آمد سے کئی گھنٹے پہلے مریضوں پر اسپتال کے دروازے بند کردیے گئے تھے اور جو مریض اندر تھے انہیں باہر نکال دیا گیا تھا۔ چنانچہ گردوں کا ایک مریض اسپتال کے باہر ہی دوا، علاج کے انتظار میں دم توڑ گیا۔ کسی مہذب ملک میں ایسے واقعہ پر ذمے داروں کے خلاف مقدمہ درج کرایا جاتا ہے۔ لیکن وزیراعلیٰ پنجاب تو مسکین شخص ہیں جن کے بارے میں عمران خان نے کہا تھا کہ چونکہ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے اس لیے وہ غریبوں کے مسائل خوب سمجھتے ہیں۔ عمران خان کے مطابق ان کے گھر میں بجلی ہے نہ گیس۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ کون سے گھر میں۔ وزیراعلیٰ بننے سے پہلے بھی ان کے پاس تین گھر تھے، دو گاڑیاں، تین ٹریکٹر تھے اور ٹریکٹروں کا مطلب ہے کہ زرعی زمین بھی ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کے پروٹوکول کی وجہ سے جو شخص نشتر اسپتال کے باہر دم توڑ گیا، وزیراعلیٰ کو اس کی خبر بھی ہوئی یا نہیں۔ لیکن اس میں نئی بات کیا ہے؟ وہ تو سب سے بڑے صوبے کے سب سے بڑے حاکم ہیں، چند ماہ پہلے بلاول زرداری کے لیے سول اسپتال کے دروازے مریضوں پربند کردیے گئے تھے اور ایک غریب باپ اپنی بیمار بچی کو گود میں لیے ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک جاتا رہا۔ مگر چونکہ اند رایک شہزادے کو پروٹوکول دیا جارہا تھا، اس کی جان ہر ایک سے زیادہ قیمتی تھی چنانچہ ایک بچی اپنے باپ کے بازوؤں میں دم توڑ گئی۔ بلاول زرداری کے پاس تو کوئی سرکاری عہدہ بھی نہیں لیکن سندھ میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے۔ پروٹوکول دینے اور بااثر افراد کے تحفظ کے لیے عوام پر راستے بند کرنا اور تنگ کرنا پرانی روایت ہے لیکن تبدیلی کے دعویداروں کو تو اپنے کہے کا پاس رکھنا چاہیے۔ عجب تماشا ہے کہ جو کہا اسی کے خلاف کیا جارہا ہے۔