ایک اور ’’نقیب محسود‘‘ کیس

226

 

 

رزو مرہ پیش آنے والے کچھ واقعات عوام کو مبہوت کردینے کا باعث بنتے ہیں اور وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ غم اور خوف کی چادر پورے سماج پر تن جاتی ہے۔ پھر سماج تادیر اس کے اثرات میں ہوتا ہے۔ انہی میں ایسا ہی کوئی واقعہ سماج اور سوچ کا دھارا ہی بدل دیتا ہے۔ ریاست کے خلاف جذبات کا لاوہ ایک دھماکے سے پھٹ پڑتا ہے تب بہت سی قوتیں حالات کا فائدہ اٹھانے کے لیے آگے بڑھتی ہیں۔ بشریٰ زیدی کیس کراچی کی سماجی اور سیاسی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ بن گیا تھا۔ تیز رفتار بس کے باعث کچلی جانے والی طالبہ بشریٰ زیدی کی موت اور نام کراچی کی سیاسی اور سماجی حرکیات کو بدلنے کی بنیاد بنا تھا۔ لال مسجد آپریشن بھی ایسا ہی واقعہ تھا جس نے مدتوں تک ہماری سماجی زندگی کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ آپریشن کے مرکزی کردار عبدالرشید غازی کی پیش گوئی کے عین مطابق آپریشن کے بعد ملک میں خود کش حملوں کا سیلاب سا آگیا تھا۔ کراچی میں ایک بے گناہ اور فنکارانہ مزاج کے حامل نوجوان نقیب محسود کا قتل بھی انہی واقعات میں شامل ہے۔ یہ واقعہ پی ٹی ایم کی سیاست کا بشریٰ زیدی کیس بنا اورانصاف میں تاخیر ریاست کے لیے ہاتھوں سے دی گئی وہ گرہ بن گئی ہے جسے دانتوں سے کھولنا بھی آسان نہیں رہا۔ اس کیس میں ایک نوجوان بے تقصیر مارا گیا اور اس کی موت کا انداز اور لہو کا بہاؤ اس کی بے گناہی کا ثبوت ہے اور اس مظلومانہ قتل نے ہمارے سماج کو جس انداز سے ہلا دیا ہے کہ اب حالات سنبھالے نہیں سنبھل رہے۔ اب ایک ایسا ہی ایک اندوہناک واقعہ ساہیوال کے ایک گھرانے کے ساتھ پیش آیا۔ جب پنجاب کے کاونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے جوانوں نے ایک گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کرکے چار افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔ ان میں میاں بیوی ایک بچی اور ایک گاڑی چلانے والا ذیشان نامی شخص شامل تھا۔ یہی کہانی کا مرکزی کردار بھی قرارپایا۔ تین بچے اس وحشیانہ کارروائی میں زندہ بچ گئے۔ گرد وپیش سے بے نیاز سہمی ہوئی معصوم بچیوں کے ہاتھوں میں دودھ کی بوتلیں اس بات کا پتا دے رہی تھیں کہ دھرتی پر ایک اور بڑی ناانصافی خونِ ناحق بہنے کی صورت میں ہوگئی ہے۔ یہ واقعہ میڈیا پر رپورٹ ہوا تو ملک بھر میں بھونچال سا آگیا اور سی ٹی ڈی نے اپنے اس ظالمانہ اقدام کی حمایت میں روایتی کہانیاں سنانا شروع کردیں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ وزیر اعظم عمران خان نے واقعے کا فوری نوٹس لے کر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اصل صورت حال جان کر رپورٹ کرنے کی ہدایت کی۔ اس حوالے سے جوائنٹ انوسٹی گیشن کمیٹی بھی قائم کر دی گئی۔
مقتولین کے ورثا لاشیں اُٹھائے ظلم کے خلاف ماتم کناں ہیں۔ اس دوران دو قسم کی ایف آر درج کی گئیں ابتدائی ایف آئی آر میں مرنے والوں کو دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیا گیا تھا جبکہ تحقیقات کے بعد درج کی جانے والی ایف آئی آر سی ٹی ڈی کے نامعلوم اہلکاروں کے خلاف در ج کی گئی۔ مقتولین کے ورثاکا اصرار ہے کہ وہ بے گناہ تھے جبکہ پنجاب پولیس اور سی ٹی ڈی کا موقف ہے ایک حساس ادارے نے اطلاع دی تھی کہ داعش کے دہشت گرد ایک فیملی کی آڑ میں بارودی مواد گوجرانوالہ منتقل کر رہے ہیں۔ اسی اطلاع پر کارروائی کی گئی۔ اگر پولیس اہلکاروں کا یہ موقف درست مان لیا جائے کہ دہشت گرد ایک خاندان کو کور کے طور پر استعمال کر رہے تھے تو بھی گاڑی پر یوں اندھا دھند فائرنگ کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اگر گاڑی میں دہشت گرد تھے تو انہوں نے جوابی فائرنگ کیوں نہیں کی؟۔ اگر موٹر سائیکل پر دہشت گردوں کا گروہ سفر کر رہا تھا تو وہ کہاں چلے گئے۔ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے گاڑی کے بجائے موٹر سائیکل کو نشانہ بنانے میں کیوں تساہل سے کام لیا۔ اس کیس میں اصل کہانی جو بھی ہے مگر ٹی ڈی سی اہلکاروں سے بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے انہوں نے ایک دو نہیں ہر شخص پر کئی کئی گولیاں برسا کر دم لیا۔
سہمی ہوئی معصوم بچیوں کی تصویریں انسانی ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہیں۔ ہم دنیا کے مقبوضہ علاقوں میں ظلم کے واقعات پر منقازیر پا ہو جاتے ہیں مگر اپنے سماج میں ہونے والی یہ درندگی ٹھنڈے پیٹوں کیوں کر برداشت کر سکتے ہیں۔ پنجاب پولیس تو ایسے پولیس مقابلوں کے لیے بدنام تھی مگر سی ٹی ڈی تو زیادہ چنیدہ اور تربیت یافتہ افراد پر مشتمل فورس ہے جسے دہشت گردی سے نمٹنے کے نام پر کھڑا کیا گیا ہے اور ظاہر ہے اس پر قوم کے بے تحاشا وسائل صرف ہوئے ہوں گے۔ اس فورس سے اس قدر غیر پیشہ ورانہ رویے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سی ٹی ڈی بھی جعلی مقابلوں کے ماہر ’’عابد باکسر‘‘ کی پنجاب پولیس کی جڑواں بہن ہے۔ فرق صرف نام کا ہے۔ ذہنیت وہی ہے، طریقہ کار وہی ہے، مقابلوں میں پار کرنے کا انداز وہی ہے اور پھر مارنے کے بعد کہانی کا اسکرپٹ بھی وہی ہے۔ یہ ہمارے سول اداروں کی صلاحیت اور کارکردگی کے آگے موٹا سا سوالیہ نشان ہے۔ اگر دہشت گردوں کے کسی گروہ نے ایک خاندان کو ہومن شیلڈ کے طور پر استعمال کرنے کی حکمت عملی اختیار کی بھی تھی تو مہارت کس چڑیا کا نام ہوتا ہے۔ سی ٹی ڈی اہلکاروں کی مہارت تو یہ ہوتی کہ وہ بے گناہ بچوں اور خاتون کو زندہ بچالیتے اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچاتے مگر یہاں تو اُلٹی گنگا بہادی گئی۔ مبینہ دہشت گرد تو سلیمانی ٹوپیاں پہن کر کہیں نکل گئے مگر بے خبری میں مبینہ ہیومین شیلڈ کے طور پر استعمال ہونے والے بے گناہ مار دیے گئے۔
ساہیوال کا واقعہ موجودہ حکومت اور قانون کی حکمرانی کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اس واقعے میں غفلت اور غلطی ہوئی ہے اس میں قطعی دورائے نہیں اور جرم کے مرتکب افراد کو قانون کی دست برد سے بچانے کے لیے کوئی محکمانہ تعصب، پیٹی بھائی بندی کا اصول، مورال گر جانے کا افسانہ حائل ہوا اور یہ کیس مٹی پاؤ طرز کی کسی لیپا پوتی کی نذر ہوا تو یہ حادثے سے بڑا سانحہ ہوگا۔ فرار ہونے والے دہشت گردوں کی تلاش اور جے آئی ٹی کی رپورٹس کا انتظار کیے بغیر غفلت اور غلطی بلکہ ظلم کے مرتکب افراد کو کسی تعصب اور رعایت کے بغیر قانون کے حوالے کر دینا چاہیے اور انصاف ہوتا ہوا نظر آناچاہیے۔