قتل کس رپورٹ پر کیے گئے

215

توقع کے عین مطابق جے آئی ٹی رپورٹ آگئی اور اتنے بڑے واقعے پر تین دن ناکافی قرار دے دیے گئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے اور دوسرے کا موقف سننے تک کسی کو پھانسی نہیں لگ سکتی۔ جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی پنجاب اعجاز شاہ نے ابتدائی رپورٹ میں کہا ہے کہ مقتول خلیل اور اہل خانہ بے قصور ہیں۔ لیکن جس قسم کوششیں اور بیان بازیاں سرکار کی جانب سے ہو رہی ہیں وہ سارے معاملے کو مزید الجھانے اور مجرموں کو بچانے کا سبب بنیں گی۔ مثلاً سی ٹی ڈی سربراہ رائے طاہر نے جائے وقوع تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ ہر ادارہ اپنا حصہ ڈال رہا ہے فائر کی گئی سب مشین گن کی گولیاں فارنزک ٹیسٹ کے لیے بھیج دی گئیں۔ سب مشین گن نہیں بھیجی گئی کیا یہ سب مشین گنیں اب کہیں موجود ہیں۔ اس سے اصل اہلکاروں تک پہنچنے میں بھی مدد ملے گی جن کے نام یہ گنیں جاری کی گئی ہیں۔ پہلے عینی شاہدین کو جائے وقوع پر بلایا گیا لیکن جے آئی ٹی کے افسران بھی تشریف نہیں لائے۔جب لوگ جانے لگے اور کچھ چلے گئے تو جے آئی ٹی تشریف لائی اور لوگوں کو ہدایت کی کہ تھانے آ کر بیان لکھوائیں۔ شواہد مٹانے کے لیے یہ حربہ اختیار کیا گیا ہے کہ 19کلو میٹر دور جا کر کون بیان ریکارڈ کرائے گا۔ مزید یہ کہ اب تھانے جانے والوں کے ساتھ جو سلوک ہوگا اس سے وہ محسوس کریں گے کہ وہ خود مجرم ہیں گواہ نہیں۔ لیکن وزیر قانون راجا بشارت نے تو حد ہی کردی۔ بے تحاشا متضاد باتیں کر گئے ان کو کیا ضرورت ہے نیا رانا ثناء اللہ بننے کی۔ انہوں نے پھر کہا ہے کہ ساہیوال آپریشن سو فیصد درست تھا۔ لیکن اس درست آپریشن پر ایڈیشنل آئی جی آپریشن پنجاب اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کو عہدوں سے کیوں ہٹا دیا گیا۔ اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور ایس پی سی ٹی ڈی کو معطل کیوں کیا گیا۔ گزشتہ روز تو انہیں انعام دینے کی سفارش کررہے تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب ، وزیر قانون اور دیگر وزراء کی ذہنی حالت اس واقعے کے بعد سے متوازن نہیں لگتی۔ وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ دوسرے کا موقف سننے اور تحقیقات مکمل ہونے تک کسی کو پھانسی نہیں لگا سکتا۔ لیکن اس کا کیا جواب ہے کہ جن لوگوں کو قتل کیا گیا انہیں کون سی تحقیقاتی رپورٹ پر قتل کیا گیا اور کون سا قانون مجرموں کو اس طرح قتل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ان کو بھی تو پکڑ کر عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ ہمارے حکمران آخر چاہتے کیا ہیں؟ جس قسم کا انداز ان کے بیانات میں اختیار کیا گیا ہے وہ تو اس طرح کا ہے جیسا کنٹینر پر تھا۔ لیکن یہ سیاست نہیں خالص انسانی مسئلہ ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون بڑھکیں مارنے کے بجائے استعفیٰ دیں کہ ان کے راج میں انسانوں کو جانوروں کی طرح مارا جارہا ہے۔ اس ملک پر نہ جانے کس قسم کے لوگ مسلط ہوگئے ہیں۔ وردی میں قاتل، اقتدار میں ان کے محافظ، عوام کہاں جائیں۔