جب گلے سے مل گئے سارا گلہ جاتا رہا

248

 

 

ایک زمانہ تھا جب شہباز شریف آصف زرداری کو سڑک پر گھسیٹنے اور اُن کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے کا دعویٰ کیا کرتے تھے، پھر ایک وقت آیا کہ انہوں نے اپنے کہے کی معافی مانگ لی لیکن زرداری نے نظر التفات نہ کی لیکن اب ایک ایسا وقت آگیا ہے کہ دونوں پر احتساب کی تلوار لٹک رہی ہے، ایک نیب کی گرفت میں آچکا ہے اور اس پر کرپشن کے نئے نئے ریفرنس بن رہے ہیں جب کہ دوسرے کا معاملہ بھی عدالت عظمیٰ نے نیب کے سپرد کردیا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ وہ بھی قانون کی گرفت میں آجائے گا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس کا معاملہ پاناما کیس سے بھی زیادہ سنگین ہے اور اس کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ اگرچہ ماضی میں دونوں ایک دوسرے کے سیاسی حریف رہے ہیں لیکن دونوں اس وقت احتساب کی زد میں ہیں۔ اس لیے پرانی دشمنیاں بھول کر وہ ایک دوسرے کو سہارا دینے پر مجبور ہوگئے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ
جب گلے سے لگ گئے، سارا گلہ جاتا رہا
شہباز شریف اور آصف زرداری نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک دوسرے سے مل کر دوستی کا آغاز کردیا ہے۔ تحریک انصاف کے دوست کہہ رہے ہیں کہ جب کسی علاقے میں ایماندار اور مجرموں پر سختی کرنے والا تھانیدار آتا ہے تو اس علاقے کے سب چور اچکے جو باہم دست و گریبان رہتے ہیں آپس کی لڑائی چھوڑ کر تھانیدار کے خلاف متحد ہوجاتے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا بھی ہے۔ ماضی میں یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار رہی ہیں، اب دونوں کی چوری پکڑی گئی ہے تو انہوں نے علاقے کے نئے تھانیدار عمران خان کے خلاف ایکا کرلیا ہے کیوں کہ وہ ان کی کرپشن پر کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے دوستوں کی یہ باتیں درست مان لی جائیں تو ان کے پاس عوام کے اس مطالبے کا کیا جواب ہے کہ نیا تھانیدار اگر اتنا ہی ایماندار ہے تو ان چوروں کو بھی باہر نکالے اور سزا دلوائے جو اس نے اپنی ’’بکّل‘‘ میں چھپا رکھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف میں بھی چوروں کی کمی نہیں ہے۔ ایک سے ایک بڑا چور اور کرپٹ اس میں چھپا بیٹھا ہے اور یہ راگ الاپ رہا ہے ’’سیّاں بھئے کوتوال اب ڈرکا ہے کا‘‘ لیکن یہ ڈراما زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ تھانیدار کو اگر اپنی ساکھ قائم کرنی ہے تو اسے اپنی ’’بکّل‘‘ میں چھپے چوروں کو بھی قانون کے حوالے کرنا ہوگا اگر وہ یہ کام نہیں کرے گا تو قانون خود اپنا راستہ بنائے گا اور ان چوروں کو اعظم سواتی کے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔
خیر یہ تو بعد کی باتیں ہیں فی الحال سیاست کا منظرنامہ یہ ہے کہ شہباز شریف اور آصف زرداری گلے مل گئے ہیں اور پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جھپی ڈال لی ہے۔ حضرت مولانا فضل الرحمن کا دعویٰ تھا کہ وہ دونوں جماعتوں کو چھ ماہ کے اندر عمران حکومت کے خلاف متحد کردیں گے لیکن یہ کام ان کی کوششوں کے بغیر مقررہ وقت سے پہلے ہی ہوگیا ہے۔ البتہ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ پی پی مسلم لیگ اتحاد حکومت کے خلاف کیا حکمت عملی اپنائے گا۔ اس کا ٹارگٹ کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی دونوں جماعتوں کا ’’اتحاد‘‘ مسکراہٹوں کے تبادلے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، دونوں جماعتیں ’’ہئیت مقتدرہ‘‘ کو یقین دلارہی ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانے کا ارادہ نہیں رکھتیں، یہ حکومت خود اپنے ہی بوجھ سے دب جائے گی اور اس کے وزرا خود اپنی حکومت کے لیے پورس کے ہاتھی ثابت ہوں گے۔ دوسری طرف میاں نواز شریف کی کوشش ہے کہ انہیں عدلیہ سے ریلیف مل جائے۔ ایون فیلڈ کیس میں نیب کی طرف سے عبوری ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست عدالت عظمیٰ نے مسترد کردی ہے جسے مسلم لیگ (ن) نے اپنی کامیابی قرار دیا ہے اور مریم نواز نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ہمیں اصل خوشی اس وقت ہوگی جب میاں صاحب گھر واپس آجائیں گے۔ وہ اس وقت العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے تحت قید کی سزا بھگت رہے ہیں اور ان کی طرف سے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس کیس میں شاید میاں صاحب کو وہ ریلیف نہ مل سکے جو پہلے مل چکا ہے ان کا معاملہ منیر نیازی کے اس شعر کی عکاسی کرتا ہے۔
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
رہے آصف زرداری تو وہ بے شک حکومت کے خلاف بڑھکیں مارتے رہیں لیکن وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس میں ان کے گرد شکنجا کسا جاچکا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ وہ بھی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ انہیں بھی سیاسی اتحاد سے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ کسی طرح ان کی گلوخلاصی ہوجائے اور وہ چین کی بانسری بجاتے رہیں۔ وہ اس سلسلے میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ روحانی امداد حاصل کرنے گوجر خان کے صوفی پروفیسر رفیق اختر کے ہاں بھی حاضر ہوئے تھے لیکن خالی ہاتھ واپس آئے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ عمران خان نے اپنے دونوں بڑے حریفوں کو ڈھا لیا ہے اور انہیں کوئی تحریک چلانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا لیکن جب تک وہ عوام کو کچھ دینے کے قابل نہیں ہوتے اِن کی یہ کامیابی بھی ناکامی تصور ہوگی اور وہ اپنے ہی وعدوں تلے دب کر رہ جائیں گے۔