عدلیہ کے لیے سلام محبت

257

محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ کو چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں وہ اس عہدے پر فائز ہونے کا بجا طور پر استحقاق رکھتے ہیں کیوں کہ وہ اعلیٰ تعلیمی پس منظرکے ساتھ ساتھ قانونی و آئینی امورکا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، اگرچہ میں عملی وکالت سے وابستہ نہیں ہوں لیکن میرے نانا چودھری محمد حسین بٹالوی، میرے ماموں چودھری محمد شریف، سلیم احمد فیضی، محمد شفیق قادری، میرے کزن چودھری محمد کاشف، چودھری محمد ناصر، میرے عزیز، چودھری عبدالعزیز سمیت متعدد دیگر سب پیشہ و کالت سے وابستہ رہے اور ہیں، مقامی بارز، ہائی کورٹ بار اور سپریم کورٹ بار کے انتخابات کے دنوں میں عدالت عالیہ و عدالت عظمیٰ کے نامور وکلا اور ماتحت عدلیہ کے متعدد جج صاحبان ہمارے گھر رونق بخشتے رہے ہیں۔ اپنے اس خاندانی پس منظر ملک کے عدالتی نظام کے ساتھ عقیدت اور محبت ایک فطری عمل ہے اپنے ان بزرگوں کی زبانی پاکستان کے کئی ایسے عظیم ججوں کی خوبیوں اور صفات کے تذکرے سنا کرتا تھا۔ ہمارے خاندان کی تین نسلیں وکالت کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں۔ ضیاء الحق کے دور میں میرے نانا مرحوم کا نام ملک کے پہلے وفاقی محتسب کے ادارے کے سربراہ کے لیے بھی زیر غور رہا، تاہم قرعہ فال جسٹس سردار محمد اقبال کے نام نکلا، قانون کے مختلف شعبوں میں ان کی مہارت اور تجربے کی وجہ سے شیخو پورہ کی بار میں آج بھی میرے نانا چودھری محمد حسین بٹالوی کا نام عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔
طالب علمی کے زمانے میں نواب محمد احمد خان قتل کیس ایک بڑے سیاسی مقدمہ کی ہائی کورٹ اور بعد میں عدالت عظمیٰ میں سماعت کی تفصیلات اخبارات میں پڑھنے اور اپنے بزرگوں سے اس سے متعلق گفتگوکا موقع ملا بعد میں عملی زندگی میں شعبہ صحافت میں آیا تو عدالت عظمیٰ کی رپورٹنگ کا
بھی موقع ملا، بطور کورٹ رپورٹر بیس سال کے عرصے میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے، نواز شریف، بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کی برطرفی سمیت بے شمار مقدمات کی سماعت کا موقع ملا، لیکن سیاسی مقدمات نے جو معاشرے پر اثرات چھوڑے ہیں، انہیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ملک کی اعلیٰ عدلیہ پر صدر پرویزمشرف نے ایمرجنسی نافذ کی تو ایک بہت بڑے امتحان میں گھری ہوئی بھی دیکھی، اس سے قبل، نواز شریف کے دوسرے دور میں عدالت عظمیٰ پر حملہ بھی دیکھا، تقسیم بھی دیکھی، جسٹس سجاد علی شاہ کا دور بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس سجاد علی شاہ اپنے برادر ججوں کے ہاتھوں ہی معزول ہو کر گھر واپس آگئے، جسٹس افتخار محمد چودھری کو مشرف کے ہاتھوں معطل ہونا پڑا تاہم جنرل مشرف کے اس اقدام کیخلاف سول سوسائٹی متحرک ہوگئی جس نے عدلیہ بحالی تحریک چلا کر جسٹس افتخار چودھری کی عدالتی فعالیت کی حمایت کی اور پھر عدالت عظمیٰ کی فل کورٹ نے جسٹس خلیل رمدے کی سربراہی میں
جسٹس افتخار چودھری کی معطلی سے متعلق جنرل مشرف کے احکام غیرقانونی اور کالعدم قرار دے دیے، انہیں چیف جسٹس کے منصب پر بحال کردیا ملک کی عدالتی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ عدالت عظمیٰ اور ہائی کورٹوں کے 60 سے زاید ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا جنہیں مشرف نے ان کے گھروں میں نظر بند کردیا اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو چیف جسٹس کے منصب پر فائز کردیا جنہوں نے پی سی او عدلیہ کے ماتحت مشرف کے ایمرجنسی اور پی سی او کے نفاذ کے اقدام کو جائز قرار دیا۔ اس پر سول سوسائٹی دوبارہ متحرک ہوئی اور باقاعدہ تحریک کا آغاز کردیا جو ججز بحالی تحریک کی صورت میں مشرف کے ہاتھوں معزول ہونیوالی عدلیہ کی بحالی پر منتج ہوئی، یہ ایسے عدالتی واقعات ہیں جو میرے لیے بلکہ عدلیہ کے دیگر خیرخواہوں کے لیے بھی تشویش کا باعث بنے ہیں۔
قانون کی تشریح کا اختیار اور انسانی حقوق کا تحفظ عدالت عظمیٰ کی آئنی ذمے داری ہے، ججوں کا یہ اختیار ہے کہ وہ قوانین کی تشریح و تعبیر ایک مستحکم اور قابلِ گمان انداز میں کریں۔ لیکن قانون سازی کا اختیار مقننہ کے پاس ہے جہاں انتظامیہ اور مقننہ عوامی اہمیت کے نہایت اہم معاملات میں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں ناکام رہے ہوں ایسے معاملات میں عدالت عظمیٰ کو آخری چارۂ کار کے طور پر منصفانہ طور پر آئین کے آرٹیکل 184/(3) کے تحت اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرنا چاہیے ازخود نوٹس کا بے دھڑک استعمال نہ صرف آئین کے آرٹیکل 10 اے (Due Process) کی رو سے مطابقت نہیں رکھتا ہے بلکہ یہ عمل ماتحت عدالتوں کے دائرۂ کار کو محدود کردینے کا باعث بھی بنتا ہے اس عمل کی وجہ سے کئی مرتبہ متاثرہ افراد اپیل کے حق سے بھی محروم رہ جاتے ہیں جس کے نتائج تباہ کن بھی ہوسکتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ وہ بطور چیف جسٹس انصاف کی فراہمی میں تعطل دور کرنے کی کوشش کرینگے اور ازخود نوٹس کا اختیار وہاں استعمال ہوگا جہاں دوسرا حل موجود نہ ہو انہوں نے کہا کہ غیرضروری التواء کو روکنے کے لیے جدید آلات کا استعمال کیا جائے گا۔ وہ جعلی مقدمات کیخلاف بند باندھیں گے اور عرصہ دراز سے زیرالتواء مقدمات کا قرض اتاریں گے وہ جعلی گواہوں کیخلاف بھی ڈیم بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول پچھلے ادوار میں ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا کی گئی عدلیہ کے قائد کی حیثیت سے چیف جسٹس کو بلاشبہ بھاری ذمے داریاں ادا کرنا ہوتی ہیں۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ ہمیں مل بیٹھ کر طے کرنا ہے کہ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ نے کہاں کیا غلط کیا ہے، اس کے لیے انہوں نے صدر مملکت کی سربراہی میں چارٹر آف گورننس پر بحث کی صایب تجویز پیش کی ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ فاضل چیف جسٹس اپنے منصب کی گیارہ ماہ کی میعاد میں چارٹر آف گورننس کے آئینی ریاستی اداروں پر انطباق میں سرخرو ہوں گے قوم کو بلاشبہ ان سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔