پہلی بات، دوسری بات اور تیسری بات

220

 

 

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات ناکامی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ابو ظہبی کے بعد اطلاعات یہ تھیں کہ مذاکرات کا اگلا دور اسلام آباد میں ہوگا۔ تاہم 21جنوری 2019 کو خبرآئی کہ افغان طالبان نے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد سے اسلام آباد میں مذاکرات کی خبروں کی تردید کردی۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق طالبان کی سینئر قیادت نے واضح کیا کہ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ملکوں نے رابطہ کیا ہے لیکن افغان طالبان زلمے خلیل زاد سے ملاقات کریں گے اور نہ افغان حکومت سے مذاکرات کیوں کہ وہ مطالبات پورے کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔ امریکا سے صرف افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا، قیدیوں کے تبادلے اور تحریک طالبان افغانستان پر پابندی ختم کرنے کے مطالبات پر ہی بات ہوگی۔
17دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات کے شہر ابو ظہبی میں افغان طالبان کے نمائندوں اور امریکا کے درمیان بات چیت شروع ہوئی تھی۔ 3دسمبر 2018 کو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے انکشاف کیا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے انہیں خط لکھا ہے جس میں افغان امن بات چیت کی کا میابی کے لیے پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کہا گیا۔ پاکستان کی حکومت تیزی سے حرکت میں آئی اور دو ہفتے بعد ہی18دسمبرکو وزیر اعظم عمران خان نے یہ اعلان کیا کہ پاکستان نے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات شروع کرادیے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی امریکا کے اشارے پر پاکستان پر دباؤ ڈالنے میں پیش پیش تھے۔ مذاکرات کے آغاز پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’ہم دعا کرتے ہیں یہ عمل امن کی جانب لے جائے اور تقریباً تین دہائیوں سے بہادر افغان عوام کی مشکلات کا خاتمہ ہو۔ امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان وہ سب کچھ کرے گا جو وہ کرسکتا ہے‘‘۔ مذاکرات کے حوالے سے تین باتیں اہم ہیں۔
پہلی بات: جو واضح ہونی چاہیے وہ یہ کہ مذاکرات پاکستان کی تجویز پر نہیں بلکہ امریکا کے حکم پر ہوئے ہیں۔ پاکستان کے حکمران یہ تاثر دے رہے ہیں جیسے وہ ایک عرصے سے فریقین کے درمیان بات چیت پر زور دیتے آرہے ہیں لیکن امریکا اس تجویز کے حق میں نہیں تھا۔ یہ پاکستان کا دباؤ تھا جس کے بعد امریکا طالبان سے براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہو اور نہ اس سے قبل وہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات پر زور دیتا رہا ہے۔ امریکا کا مذاکرات کے انعقاد کے لیے پاکستان سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کہنا دراصل پاکستان کی تجویزکو تسلیم کرنا ہے۔ لیکن امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان کا واضح بیان حکومت پاکستان کے موقف کی تائید نہیں کرتا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ ’’پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو صدر ٹرمپ نے جو خط لکھا تھا اس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان پا ئیدار شراکت کے لیے یہ بنیادی ضرورت ہے کہ پاکستان افغان عمل میں معاونت فراہم کرے۔‘‘ گویا اگر پاکستان امریکا سے شراکت کا خواہاں ہے تو اسے افغان عمل میں معاونت فراہم کرنا پڑے گی۔
2004 کے بعد جب امریکی قبضے کے خلاف افغانستان میں مزاحمت شروع ہوئی تو امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے امریکا کے حکم پر اس جنگ میں اپنا کردار اس طرح ادا کیا کہ افغان مجاہدین کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے افغان مجاہدین کی جو عسکری، افرادی اور مالی مدد کی جارہی تھی اس کے خاتمے کے لیے پاکستان نے اپنے ہی قبائلی علاقوں کو برباد کر ڈالا اور جواز یہ تراشا کہ یہ امریکا کی نہیں پاکستان کی جنگ ہے۔ لہٰذا ہم جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ پاکستان کے مفاد کے لیے ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ غداری کے بعد ایسے ہی دلائل دیے جاتے ہیں لیکن پاکستان کے عوام اتنے بھی سادانہیں۔ وہ اپنی سیاسی اور عسکری قیادت کی غداریوں سے آگاہ ہیں۔
مذاکرات امریکا کی مجبوری ہیں۔ امریکا تاریخ کی عظیم ترین جنگی مشین ہونے، ناٹو افواج اور بھرپور انٹیلی جنس معلومات کے باوجود افغانستان میں ایک شکست خوردہ قوت ہے۔ وہ افغان طالبان کی مزاحمت کو کچلنے میں ناکام رہا ہے۔ وہ افغانستان سے فرار کے راستوں کی تلاش میں ہے لیکن یاد رہے کچھ مقاصد کے ساتھ۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے وہ مذاکرات پر مجبور ہے۔ جن کے لیے اسے ایک بار پھر پاکستان جیسے کرائے کے ٹٹو کی ضرورت ہے۔ ادھر اشارہ ہوا اُدھر یہ ٹٹو امریکا کو اپنے اوپر سوار کرا پنی لگامیں، اس کے سپرد کر، اُسے اُس کی منزل تک پہنچانے کے لیے تیار ہوگیا۔ کرائے کے سہولت کارکی ذلیل خدمت بجالاتے ہوئے پاکستان کے حکمرانوں کی خوشی دیکھنے کے قابل ہے لیکن پاکستان کے عوام کو وہ یہ فریب دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ مذاکرات امریکا کے اصرار پر نہیں ان کی تجویز پر ہوئے ہیں۔
ہماری عسکری اور سیاسی قیا دت تکرار کررہی ہے کہ پاکستان آئندہ دوسروں کی جنگ نہیں لڑے گا۔ دوسروں کی جنگ لڑ کر ہم نے 100ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اُٹھایا ہے۔ ہزاروں شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکت برداشت کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر دوسروں کی جنگ لڑکر ہم نے نقصان اُٹھایا ہے تو دوسروں کے لیے سہولت کار کے فرائض انجام دے کر ہم کیسے خسارے سے بچ سکتے ہیں۔ جب کہ مذاکرات مسلمانوں اور اسلام کے بدترین دشمن امریکا کے کہنے پر کیے جارہے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں قرار دیا ہے: ’’مومنو! اگر تم کافروں کا کہا مان لو گے تو وہ تم کو اُلٹے پاؤں پھیر کر (مرتد) کردیں گے۔ پھر تم بڑے خسارے میں پڑ جاؤ گے‘‘۔ (آل عمران: 149)
دوسری بات: مذاکرات کا بظاہر مقصد 17برس سے جاری افغان جنگ کا خاتمہ اور امریکی افواج کا انخلا ہے لیکن یہ ایک فریب ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہونی چا ہیے کہ امریکا کا افغانستان سے ’’مکمل انخلا‘‘ کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ امریکا مذاکرات کے ذریعے اپنی فوجی اور سیاسی موجودگی کو طویل عرصے کے لیے برقرار رکھنے کے لیے ایک ’’سیاسی معاہدہ‘‘ کرنا چاہتا ہے۔ مذاکرات اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ 14ستمبر 2018 کو وائس آف امریکا نے طالبان ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ امریکا کے بنیادی مطالبات دو ہیں:
1: امریکا افغانستان میں موجود اپنے چھ میں سے دو اڈوں کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
2: طالبان امریکا کے زیر سایہ بننے والے افغان آئین کو تسلیم کریں۔
جہاں تک امریکا کی نگرانی میں تشکیل دیے گئے افغان آئین کا تعلق ہے تو یاد رہے کہ افغان مجاہدین کی جدو جہد صرف قابض امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنے تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ افغان آئین کو تسلیم کرنے کی صورت میں یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ یوں امریکی افواج کا انخلا نصف کامیابی ہے، ایک ادھوری کامیابی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس آئین کے ذریعے جو حکومت قائم ہوگی اس میں امریکی ایجنٹ موجود ہوں گے۔ امریکی مطالبات جو بظا ہرکچھ لو اور کچھ دو کے اصولوں پر مبنی نظر آتے ہیں بظاہر اتنے سادہ نہیں ہیں۔ ان مطالبات کو تسلیم کرنے کی صورت میں مستقبل کا افغانستان امریکا کے چند اڈوں، چھوٹی سی امریکی فوج اور امریکی ایجنٹوں پر مشتمل ایک ایسی ملک ہوگا جسے نہ تو امریکا کے قبضے سے مکمل طور پر آزاد قرار دیا جاسکے گا اور نہ ہی وہاں اسلامی شریعت نافذ ہوگی۔
(جاری ہے)