گاندھی جی کی ناکامیاں ہنوز ہندوستان پر طاری ہیں

279

30 جنوری کوگاندھی جی کو قتل ہوئے 71 سال ہوگئے۔ اس قتل سے پہلے دلی میں مسلم کْش فسادات اور قتل و غارت گری کی ایسی آگ بھڑکی ہوئی تھی کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ جنوری کے اوائل میں گاندھی جی، سہروردی صاحب کے ساتھ کلکتہ اور نواکھالی کے فساد زدہ علاقوں کے دورے کے بعد دلی پہنچے تو سیدھے مسلم قوم پرست تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ آئے۔ اس زمانے میں میں جامعہ میں زیر تعلیم تھا۔ جامعہ میں آس پاس کے دیہاتوں سے فساد زدہ بے گھر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پناہ گزیں تھی۔ گاندھی جی تین گھنٹے سے زیادہ جامعہ میں رہے اور سارے وقت ایک چبوترے پر مسلم پناہ گزینوں کے بیچ بیٹھے رہے اور انہیں تسلی اور دلاسہ دیتے رہے۔ بار بار وہ ان مسلمانوں کو دیکھ کر ایک لمبی آہ بھر کر کہتے ’’بہت برا ہوا بہت برا ہوا‘‘۔ ان کے چہرے سے کرب عیاں تھا، کہہ رہے تھے کہ میں پاکستان جا کر ان سب بھائیوں کو اپنے ساتھ واپس لاوں گا جو یہاں سے چلے گئے ہیں۔ جاتے ہوئے کہنے لگے کہ میں فسادات کو رکوانے اور پاکستان کی رکی ہوئی پچپن کروڑ روپے کی رقم ادا کرانے کے لیے مرن برت رکھوں گا۔ چنانچہ اپنے اعلان کے مطابق گاندھی جی نے 13 جنوری کو مرن برت شروع کیا اور کہا کہ وہ اْس وقت تک برت جاری رکھیں گے جب تک فسادات ختم نہیں160ہوتے، چاہے اس دوران وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
گاندھی جی کے مرن برت سے پورے ہندوستان میں کھلبلی مچ گئی اور گاندھی جی کا برت ختم کرانے کے لیے ہندو، مسلم اور سکھوں کے عمائدین اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے جن میں ہندو قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور ہندو مہا سبھا کے نمائندے بھی شامل تھے، دلی اعلانیہ کے نام سے ایک پیمان پر دستخط کیے جس میں کہا گیا تھا کہ ہندو اور سکھ، مسلمانوں پر حملے نہیں کریں گے اور امن بحال کریں گے۔ گاندھی جی نے ان رہنماؤں سے کہا کہ میں آپ کو اس پیمان کا پابند کرنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے خلاف فسادات صرف دلی ہی میں نہیں بند ہوں گے بلکہ اس پیمان کا اطلاق پورے ہندوستان پر ہوگا اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ بند ہوگا۔
یہ ستم ظریفی ہے کہ اس پیمان پر گاندھی جی کے مرن برت کے خاتمے کے بارہ روز بعد آر ایس ایس کے ایک کارکن نتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کو گولی مار کر قتل کردیا۔ اور چار سال پہلے جب آر ایس ایس کی چیلی جماعت بھارتیا جنتا پارٹی نریندر مودی کی قیادت میں بر سر اقتدار آئی تو کھلم کھلا اس پیمان کی خلاف ورزی کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں ہندوستان میں آباد اٹھارہ کروڑ سے زیادہ مسلمان جس عذاب کی زندگی گزار رہے ہیں، گائے کے ساتھ چلتے ہیں تو زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، انہیں غیر ملکی حملہ آور قراردیا جاتا ہے اور ان سے کہا جاتا کہ اگر وہ ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ہندو مت اختیار کرنا پڑے گا ورنہ انہیں اس سر زمین کو خیر باد کہنا ہوگا جس پر ان کے آباو اجداد نے صدیاں گزاری ہیں اور جس کی ترقی اور خوشحالی کے لیے انہوں نے خون پسینہ بہایا ہے۔ دلی اعلانیہ کے فوراً بعد 30 جنوری کو گاندھی جی کا قتل اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ان کا عدم تشدد (اہنسا) کا نظریہ جس کا وہ ساری عمر پرچار کرتے رہے یکسر ناکام رہا۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان نے کسی بڑے خون خرابے کے بغیر آزادی حاصل کی ہے اور اس کا سہرا گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریہ کے سر ہے، لیکن بہت سے مبصرین کی رائے میں ہندوستان کی آزادی کے حصول میں کئی اور محرکات شامل تھے۔ اول تو دوسری عالم گیر جنگ کے بعد برطانیہ کی معیشت اتنی کمزور ہوگئی تھی کہ اسے اتنی بڑی نوآبادی کو سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا۔ دوم امریکا اور یورپ کا برطانیہ پر شدید سیاسی دباؤ تھا کہ وہ ہندوستان اور اپنی دوسری نو آبادیوں کو آزاد ی دے۔ سوم ہندوستان میں فرقہ وارانہ کشمکش اور کشیدگی اس سطح پر پہنچ گئی تھی کہ برطانوی راج کو اس پر قابو پانا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ چوتھی وجہ سب سے اہم تھی جس سے برطانوی راج ہل کر رہ گیا تھا اور وہ تھی فروری سن چھیالیس میں ہندوستان کی بحریہ میں بغاوت جو بمبئی سے شروع ہوئی اور اس نے کراچی، کلکتہ اور دوسری بندگاہوں کو بھی اپنی لپیٹ لے لیا تھا۔ بحری فوج کے 78 جہازوں کے بیس ہزار بحری فوجیوں نے اس بغاوت میں حصہ لیا تھا۔ اس بغاوت کو فرو کرنے کے لیے آخر کار برطانوی راج کو ہندوستان کے سیاست دانوں کی مدد حاصل کرنی پڑی۔ اگر ہندوستان کی آزادی گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریے کی مرہون منت ہے تو یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آزادی کے ساتھ پورے برصغیر میں جو ہولناک فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کی آگ بھڑکی جس میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے، پچاس لاکھ سے زیادہ افراد جس خونریزی کے عالم میں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور ایسی بھیانک اقتصادی اتھل پتھل مچی کہ جس کی نظیر آج تک نہیں ملتی، اسے تو کسی صورت میں عدم تشدد کی کامیابی نہیں کہا جا سکتا۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سبھاش چندر بوس یا مولانا عبید اللہ سندھی کی قیادت میں آزادی کی مسلح جنگ ہوتی تو ممکن ہے کہ دس لاکھ لوگ جاں بحق ہوتے لیکن اتنے بڑے پیمانے پر غارت گری نہیں ہوتی۔ آزادی کی تحریک کے دوران اور اس کے بعد پورے برصغیر میں فرقہ وارانہ تشدد اور قتل و غارت گری کا جو دور دورہ رہا وہ اس دعوے کو باطل ثابت کرتا ہے کہ ہندوستان کی آزادی گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریے کی مرہون منت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہندوستان میں مسلمانوں کے سنگین حالات گاندھی جی کی ناکامیابیوں کے ناقابل تردید ثبوت ہیں۔