سرحد پار سے خبر نما خواہش

213

بھارتی میڈیا میں یہ دلچسپ خبر حقیقت میں ایک چیختی چنگھاڑتی خواہش کا عکس تھی کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جا وید باجوہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور مذاکرات کے لیے اپنے بھارتی ہم منصب جنرل بپن راوت کے ساتھ رابطے کی خواہش رکھتے ہیں۔ گزشتہ ستمبر میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اسلام آباد میں مقیم مغربی سفارتی ذرائع کے حوالے سے ایسی ہی کہانی بیان کی تھی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کی خراب معاشی صورت حال اور عالمی مشکلات کی وجہ سے بھارت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز چاہتے ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے جنرل راوت سے رابطہ کیا تھا۔ خبر میں کہا گیا تھا کہ جنرل باجوہ اور جنرل راوت کانگو میں اقوام متحدہ کے فوجی مشن کے تحت خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اسی خبر کو مختلف زاویوں سے پیش کرنا اب بھارت کا مشغلہ بن چکا ہے۔ جنرل بپن راوت نے بھارت کی خاتون صحافی ہریندر باویجہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میں ایک سپاہی ہوں اور جنرل باجوہ کو مذاکرات کی بات حکومت ہندوستان سے کرنا چاہیے۔ میں بھارتی فوج کا سربراہ ہوں حکومت کا موقف ہی میرا موقف ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے کچھ عرصہ قبل دونوں فوجی سربراہوں کے درمیان مذاکرات کی تجویز پیش کی تھی۔
ہریندر باویجہ بھارت کی ایک سینئر اخبار نویس ہیں جو پاک بھارت معاملات اور کشمیر کے حوالے سے خاصا تجربہ رکھتی ہیں۔ ان کے تعلقات کی دنیا دہلی تک محدود نہیں بلکہ اسلام آباد سے ہوتی ہوئی بہت آگے ہے۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں وہ کنٹرول لائن کو سیدھا کرکے مستقل سرحد بنادینے کی تجویز کے ساتھ اسلام آباد آئی تھیں۔ ہریندر باویجہ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مسٹر دولت کا کہنا تھا کہ پیغام بھیجنے کے مختلف انداز ہوتے ہیں بھارت کو پہلے اپنا ذہن واضح کرنا چاہیے کہ مذاکرات کرنا ہیں یا نہیں؟۔ اگر امریکا اور شمالی کوریا جیسے دشمنوں کے مابین مذاکرات ہو سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟۔ پاک فوج کے ادارے آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے بھارت اخبارکی اس خبر کی تردید کی کہ جنرل باجوہ نے بپن راوت سے مذاکرات کے لیے کوئی رابطہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا پاک بھارت مذاکرات کا فیصلہ کرنے کا اختیار حکومتوں کا ہے۔ انہوں نے اس بات کی تردید بھی کی جنرل باجوہ کانگو میں جنرل راوت کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ اس طرح پاکستان اور بھارت دونوں کے فوجی حلقوں نے ایسے کسی بھی رابطے کی تردید کی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی خواہش تو اندرونی اور بیرونی حلقوں میں موجود ہے مگر اس طرح کی خبروں میں جھول موجود ہے۔ پاکستان میں فوجی سربراہ کو بااختیار سمجھا جاتا ہے۔ بھارت میں کچھ اسٹرٹیجک امور کے سوا بھارتی فوج کے سربراہ کی کوئی خاطر خواہ اہمیت نہیں ہوتی۔ جنرل باجوہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایک کمزور چینل کو مذاکرات کا پیغام بھیجیں۔ ایسے میں جب عمران خان اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی بھارت کو باربار مذاکرات کی پیشکش کرتے چلے آرہے ہیں۔ دو فوجیوں حتیٰ کہ کمانڈروں کے درمیان رابطہ کوئی انہونی بات نہیں۔ ایسے میں جب دو ملک قریب قریب حالت جنگ میں ہوں تو ہاٹ لائن کو ٹھنڈا نہیں رکھا جاسکتا۔ آئے روز سرحدوں پر مٹھائی کے تبادلوں، ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان ملاقاتوں اور ٹیلی فونک بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ یہ روابط خالص فوجی معاملات کو حل کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ دو ملکوں کے درمیان مذاکرات کا فیصلہ ریاستوں کی سطح پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ بھارتی میڈیا اس مرحلے پر مخصوص انداز کی خبریں چلا کر ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتا ہے۔ اول یہ کہ بھارت واقعی کسی دباؤ پر اعلیٰ ترین فوجی سطح پر رابطہ کرنا چاہتا ہو۔ اب طالبان اور امریکا کے آمنے سامنے بیٹھنے سے آتشِ شوق کچھ مزید بڑھ گئی ہو اگر سترہ برس سے ایک دوسرے کا خون بہانے والے فریق ایک میز کے گرد بیٹھ سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کی فوجوں کے سربراہ ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ دوم یہ کہ بھارتی فوج کے سربراہ اب سسٹم کے اندر اپنی اہمیت جتلانا چاہتے ہوں کہ پاکستانی ہئیت مقتدرہ کے سربراہ حکومت ہندوستان کو نظر انداز کرکے فوجی سربراہ کو اہمیت دے رہے ہیں۔ وہ بھارت کی سیاسی قیادت کو گھر کی مرغی دال برابر کا احساس دلا رہے ہوں۔ سوم یہ کہ بھارتی حلقے راولپنڈی اور اسلام آباد میں خلیج پیدا کرنے کے لیے اپنے کارڈ استعمال کرنا چاہتے ہوں۔ سیاسی حکومت کو یہ باور کرانا مقصود ہو کہ آرمی چیف براہ راست کس طرح بھارت کو مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں۔ ماضی میں بھارت اور مغربی حلقے راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان غلط فہمیوں کو بڑھانے کے لیے یہی انداز اپناتے رہے ہیں۔ چہارم یہ کہ دنیا کو یہ تاثر دیا جائے پاکستان میں سول حکومت کے باجود اہم فیصلوں پر فوج کا اختیار ہی برقرار ہے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے ایسی کسی نامہ وپیام اور خواہش کی تردید کرکے ایسے کسی چھید کو ہونے سے پہلے ہی روک دیا گیا۔
بھارت کو اندازہ ہوگیا ہے کہ پاکستان کو تنہا کردینے کا شوق خود ان کے گلے پڑ گیا ہے۔ پاکستان تیزی سے دنیا میں اپنا امیج ٹھیک کرتا اور اپنے روابط کو مضبوط کر رہا ہے۔ اس کوشش کے اثرات معیشت کے شعبے میں بھی ظاہر ہوں گے۔ ایسے میں بھارت کو ہر قیمت پر مذاکرات کی میز تک کھینچ لانا پاکستان کی مجبور ی نہیں۔ اس دل شکستہ صورت حال میں جبکہ بھارت کو انتخابی مرحلہ بھی درپیش ہے بھارتی میڈیا سے مزید رنگ آمیز خبروں کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔