سند? اسمبل?:آئند? مال? سال 2015-16ء??لئ? بج? تجاو?ز پر بحث ?ا آغاز

268

سندھ اسمبلی میں پیر کو رواں مالی سال 2014-15 ءکی تیسری سہ ماہی رپورٹ اور آئندہ مالی سال 2015-16 کے لئے بجٹ تجاویز پر بحث کا آغاز ہوا۔ سندھ اسمبلی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طرح کی بحث کرائی گئی ہے۔ بحث کے دوران سرکاری اور اپوزیشن ارکان نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ترقیاتی بجٹ میں سے بہت کم رقوم جاری کی گئیں اور جاری کردہ رقوم میں سے بھی بہت کم اخراجات کئے گئے۔ ارکان نے محکمہ خوراک کی طرف سے گندم کی خریداری کے لئے بینکوں سے لئے گئے قرضوں اور ان پر اربوں روپے کے سود کی ادائیگی کی تحقیقات اور محکمہ خوراک کا مکمل آڈٹ کرانے کا بھی مطالبہ کیا۔ ارکان نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سندھ انویسٹمنٹ بورڈ کی طرف سے ترقیاتی اخراجات کی مد میں 2 ارب روپے سے زائد رقم خرچ کرنے کی بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

بحث کا آغاز کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے کہا کہ یہ کریڈٹ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو جاتا ہے کہ اس نے بجٹ کی سہ ماہی رپورٹس اسمبلی میں پیش کیں اور ان رپورٹس کے ساتھ ساتھ آئندہ بجٹ کی تجاویز پر بھی بحث کرائی۔ آئندہ بجٹ کی تجاویز پر بحث فروری یا مارچ میں ہونی چاہئے تھی۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اپنی آمدنی کے اہداف پورے نہیں کر سکی ہے۔ 93 ارب روپے کے ہدف کی بجائے73 ارب روپے وصول ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی تشویش ناک ہے کہ 9 ماہ میں 48 ارب روپے سبسڈیز ، قرضوں کی معافی اور گرانٹس پر خرچ کئے گئے، ان میں سے 38 ارب روپے صرف محکمہ خزانہ نے خرچ کئے، اس کا آڈٹ ہونا چاہئے کہ یہ رقم کہاں خرچ ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ خوراک کا مکمل آڈٹ ہونا چاہئے۔ محکمہ خوراک پر مختلف بینکوں کے 83 ارب روپے کے قرضے ہیں، جن پر سود بھی ادا کیا جا رہا ہے، یہ قرضے گندم کے لئے حاصل کئے گئے تھے، اس صورت حال کو کنٹرول کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے بڑے منصوبوں کے ۔ 4 ، ایس ۔ 3 ، لیاری ایکسپریس وے ، پمپنگ اسٹیشنز کی توسیع سمیت دیگر منصوبوں کے لئے خاطر خواہ رقم مختص نہیں کی گئی، ان منصوبوں پر توجہ دی جائے اگر دھابیجی پمپنگ اسٹیشنز کی توسیع کر دی جاتی تو آج کراچی میں پانی کا مسئلہ اتنا سنگین نہ ہوتا۔

پیپلز پارٹی کے میر حیات تالپور نے کہا کہ ترقیاتی اسکیموں پر عمل درآمد کی رفتار سست ہے اور جاری کردہ رقم بھی خرچ نہیں ہو سکتی۔ بدین سمیت پورے صوبے میں سڑکوں کی حالت بہت خراب ہے، سڑکوں کی مرمت اور نئی سڑکوں کی تعمیر کے لئے زیادہ رقوم مختص کی جائیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن حاجی شفیع جاموٹ نے کہا کہ کراچی میں پانی کا شدید بحران ہے، سب سے بڑا مسئلہ پانی کی تقسیم کا ہے، پانی کے ساتھ ساتھ کراچی میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر پر بھی توجہ دی جائے۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کے سعید خان نظامامی نے کہا کہ اپوزیشن کے ارکان سندھ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے گئے، کیا وہ عوام کے نمائندہ نہیںہیں، حکومت سندھ کو چاہئے کہ وہ سب کوساتھ لے کر چلے۔ ایم کیو ایم کے سید خالد احمد نے کہا کہ کراچی کے پانی کے چار بڑے منصوبوں کے لئے 21 ارب روپے کی ضرورت ہے حکومت سندھ نے یہ منصوبے اپنے ترقیاتی پروگرام میں بھی شامل کئے لیکن ابھی تک ایک پیسہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے محمد نواز چانڈیو نے کہاکہ آئندہ سال نئی ترقیاتی اسکیمیں شروع نہ کی جائیں بلکہ پرانی اسکیموں کو مکمل کرنے کے لےے بجٹ مختص کیا جائے ۔ تعلیم اور سڑکوں کی حالت تباہ ہے، ان پر توجہ دی جائے۔

مسلم لیگ (فنکشنل) کی مہتاب اکبر راشدی نے کہاکہ یہ بات تشویش ناک ہے کہ پورے سال میں ترقیاتی بجٹ میں سے صرف 67 فیصد رقوم جاری ہوئیں اور ان میںسے بھی صرف 35 فیصد رقوم خرچ ہوئیں، کچھ محکموں نے تو صرف 20 فیصد رقم خرچ کی، اس سے سندھ مین ترقی کیسے ہوگی، اس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ سندھ میں تعلیم کی حالت بہت خراب ہے، 64 بچے پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کئے بغیر اسکول چھوڑ جاتے ہیں، تعلیم کے ترقیاتی بجٹ میں سے صرف 5 ارب روپے خرچ ہوئے، بعض ترقیاتی شعبوں کے لےے خرچ کی گئی رقوم کی شفافیت پر سوالیہ نشانات ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سردار احمد علی پتافی نے کہا کہ ہمارے ضلع گھوٹکی میں ترقیاتی اسکیموں کے لےے پیسے جاری ہی نہیں کےے جار ہے ، جو پیسے جاری ہوتے ہیں ، وہ کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ محکمہ خوراک کے معاملات کا آڈٹ ہونا چاہئے ۔ یہ محکمہ بینکوں سے قرضے لے کر ان پر اربوں روپے سود ادا کرتا ہے ۔ یہ رقم سود کی ادائیگی کی بجائے کاشت کاروں کوسبسڈی دینے پر خرچ کی جاتی تو اس کا فائدہ بھی ہوتا۔

ایم کیو ایم کی رعنا انصار نے کہا کہ صوبے کی بہت سی اہم ترقیاتی اسکیموں کے لےے رقم جاری نہیں کی گئی۔ حیدر آباد شہر کی متعدد منظور شدہ اسکیموں کے لےے حکومت سندھ رقم جاری کرے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سید حفیظ الدین نے کہا کہ خدمات پر سیلز ٹیکس کی شرح اس خطے میں بہت زیادہ ہے، اس سے کاروبار کرنے کے اخراجات بڑھ رہے ہیں، حکومت سندھ اس ٹیکس کی شرح کم کرے، سندھ بینک بلا سود چھوٹے قرضے جاری کرے، زرعی آمدنی پر ٹیکس کی شرحیں کم ہیں، ان پر نظر ثانی کی جائے ۔ ایم کیو ایم کے سلیم راجپوت نے کہاکہ سکھر بے شمار شہری اور بلدیاتی مسائل کا شکار ہے، ان مسائل کے حل پر خصوصی توجہ دی جائے۔ سکھر میونسپل کارپوریشن کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کی جائے ۔ غلام محمد مہر میڈیکل کالج سمیت سکھر کی کئی اسکیموں کے لئے پیسے جاری کئے جائیں۔ پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر سہراب سرکی نے کہا کہ محکمہ آبپاشی کے منصوبوں کے لئے زیادہ رقم مختص کی جائے کیونکہ صوبے کی زرعی معیشت کے لئے نظام آبپاشی کی بحالی اور بہتری ضروری ہے۔