اسٹیٹ بینک شرح سود 10.25 فیصد مقرر کر دیا

293

کراچی: اسٹیٹ بینک نے آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں 25 بیسز پوائنٹ کا اضافہ کرکے شرح سود 10.25 فیصد مقرر کر دی ہے۔گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے اسلام آباد میں نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا اور کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اب بھی بلند ہے لیکن پچھلے بارہ ماہ میں اس خسارے میں کمی ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ معیشت کو چینلجز درپیش ہیں ،ہمیں مالیاتی خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دونوں کم کرنے کی ضرورت ہے۔طارق باجوہ کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ ملکی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق دسمبر 2018 میں کنزیومر پرائس انڈیکس 8 سے اوپر رہا جب کہ گندم کی فصل میں بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔سعودی عرب سے تیل کے معاہدے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے مؤخر ادائیگی پر تیل لینے کے معاملات طے پا گئے ہیں

اس معاہدے پر دستخط سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کے موقع پر کیے جائیں گے۔تفصیلات کے مطابق نومبر 2018ء میں گذشتہ زری پالیسی بیان کے بعد جاری ہونے والے معاشی ڈیٹا سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ پچھلے بارہ مہینوں کے دوران معاشی استحکام کے حوالے سے کیے گئے اقدامات کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اہم ماہانہ اظہاریے ملکی طلب میں کمی کی نمایاں علامات کے عکاس ہیں۔

جاری کھاتے کا خسارہ کم ہے، اگرچہ ایسا بتدریج ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مالی رقوم کی آمد میں اضافہ بھی ملک کے بیرونی کھاتوں پر دباؤمیں کمی کا باعث بن رہا ہے۔ یہ پیش رفت حوصلہ افزا ہے اور معاشی بے یقینی میں کمی کا باعث بنی ہے۔ لیکن پاکستانی معیشت کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے: (الف) جاری کھاتے کا خسارہ بلند ہے (ب) مالیاتی خسارہ اونچی سطح پر اور مہنگائی بھی بلند ہے۔ یہ صورت حال معاشی یکجائی کی مسلسل کوششوں کی متقاضی ہے۔مالی سال 19ء کی پہلی ششماہی میں اوسط عمومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی 6.0 فیصد پر ہے جو گذشتہ برس کی اسی مدت کے3.8 فیصد کے مقابلے میں خاصی بلند ہے۔

گذشتہ دو مہینوں کے دوران سال بسال عمومی مہنگائی میں کچھ اعتدال آیا ہے، جس کا بنیادی سبب تلف پذیر غذائی اشیا کی قیمتوں کا تیزی سے گرنا اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہے۔ ان پیش رفتوں کے اثرات کو آئی بی اے اسٹیٹ بینک کے حالیہ اعتمادِ صارف سروے میں بھی شامل کیا گیا ہے، جس سے گھرانوں میں مہنگائی کی توقعات میں کچھ اعتدال کی نشاندہی ہوتی ہے۔

مذکورہ مثبت عوامل کے باوجود سی پی آئی باسکٹ میں شامل غیرغذائی غیر توانائی اجزا سے اخذ کی جانے والی قوزی مہنگائی دسمبر 2018 ء4 میں بڑھ کر 8.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ امکان ہے کہ آگے چل کر شرح مبادلہ ، گیس اور بجلی کے ٹیرف میں اضافے اور اسٹیٹ بینک سے حکومتی قرضوں کی بلند سطح کے مہنگائی پر دورِ ثانی اثرات ، پالیسی ریٹس میں اضافے کے مؤخر اثرات اور تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی سے زائل ہو جائیں گے۔ اس کے مطابق مہنگائی کی پیش گوئی کی حد کسی تبدیلی کے بغیر 6.5 فیصد تا 7.5 فیصد تک رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

مہنگائی میں اضافہ اور معاشی چیلنجوں کا تسلسل اقتصادی کارکردگی پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ سال کی پہلی ششماہی میں حقیقی معاشی سرگرمی میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ معیشت میں وسیع روابط کے حامل بڑے پیمانے کی اشیا سازی یعنی لارج مینوفیکچرنگ اسکیل کے شعبے میں مالی سال کے ابتدائی پانچ مہینوں کے دوران 0.9 فیصد کی خالص کمی ہوئی، جس کا اہم سبب ملکی طلب میں اعتدال اور بعض مخصوص شعبہ جاتی دشواریاں ہیں۔ خریف کی تمام اہم فصلوں کی پیداوار میں گذشتہ برس کی نسبت کمی آئی ہے۔

گندم کی فصل کا ابتدائی تخمینہ بھی حوصلہ افزا نہیں۔ اجناس کے پیداواری شعبوں میں تبدیلیوں کے خدمات کے شعبے پر براہ راست اور بالواسطہ اثرات کے باعث امکان ہے کہ مالی سال 19ء میں حقیقی جی ڈی پی کی نمو کم ہو کر تقریباً 4.0 فیصد پر رہے گی، جو 6.2 فیصد کے سالانہ ہدف اور گذشتہ برس ہونے والی 5.8 فیصد نمو کے مقابلے میں کافی کم ہے۔جولائی تا دسمبر مالی سال 19 ء میں نجی شعبے کے قرضوں میں 570.4 ارب روپے کی خالص توسیع ہوئی جو گذشتہ برس کی اسی مدت میں ہونے والے اضافے سے تقریباً دگنی تھی۔ اس نمو کو بڑی حد تک خام مال (کپاس، پیٹرولیم مصنوعات وغیرہ) کی بلند لاگت ، بجلی اور تعمیرات سے منسلک صنعتوں (خصوصاً سیمنٹ اور فولاد) کی پیداواری گنجائش میں مسلسل اضافیاور حکومت کی جانب سے کمرشل بینکوں سے لیے گئے قرضوں کی واپسی سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔

اسٹیٹ بینک سے خالص میزانی مالکاری یکم جولائی تا 18 جنوری مالی سال 19ء کے دوران 3,770.5 ارب روپے تک جا پہنچی، جو گذشتہ برس کی اسی مدت میں قرض لی گئی رقم کا 4.3 گنا بنتی ہے۔ اس قرضے کا نتیجہ مستقبل میں ممکنہ مہنگائی کی صورت میں نکلے گا۔ ان قرضوں کا بڑا حصہ کمرشل بینکوں سے حکومتی قرضے کی واپسی میں استعمال کیا گیا (خالص واپسی 3035.8 ارب روپے)۔ مختصر مدت میں حکومتی قرض گیری کی اسٹیٹ بینک سے کمرشل بینکوں کو اس بھاری منتقلی سے نجی شعبے کو قرض دینے (lending) کی ترغیب ملی ہے۔ بینک اپنی رقوم کو redeploy کرنے کے لیے متفکر معلوم ہوتے ہیں

کیونکہ زری سختی کے موجودہ دورانیے اور معاشی سست روی کے حالات میں بینکوں کی طرف سے وصول کیے جانے والے تفاوت میں بمشکل ہی کچھ اضافہ ہوا ہے۔ یکم جولائی تا 18 جنوری مالی سال 19ء کے دوران قرضے کے صحت مند استعمال اور بلند حکومتی قرض گیری دونوں نے زرِ وسیع (ایم ٹو) کی 2.2 فیصد تک بلند نمو میں بنیادی کردار ادا کیا جبکہ گذشتہ سال کی اسی مدت میں یہ 1.1 فیصد رہا تھا۔مالی سال 19ء کی پہلی ششماہی میں امکان ہے کہ مالیاتی خسارہ گذشتہ برس کی اسی مدت سے زیادہ رہے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ایس ڈی پی اخراجات کی رقوم میں کٹوتی اور ٹیرف اور ڈیوٹیوں کو حقیقت پسندانہ بنانے کے باوجود مالیاتی یکجائی بدستور ایک چیلنج ہے۔ ایم پی سی نے اپنے پہلے موقف کا اعادہ کیا کہ مالیاتی پالیسی کو فعال ہونا چاہیے اور معاشی استحکام اور پائیدار نمو کے لیے سازگار حالات کی تخلیق میں معاون کردار ادا کرنا چاہیے۔بیرونی محاذ پر سال کی پہلی ششماہی کے دوران جاری حسابات کاخسارہ 4.4 فیصد سال بسال کمی کے بعد 8.0 ارب ڈالر رہ گیا

۔ اس بہتری کا بڑا سبب اشیا اور خدمات کی درآمد میں ہونے والی تیز رفتار کمی ہے۔ معاشی استحکام کے اقدامات کے اثرات نان ا?ئل درا?مدات پر خاصے نمایاں ہیں جن میں مالی سال 19ء کی پہلی ششماہی کے دوران 4.4 فیصد کمی آئی جبکہ گذشتہ سال کی اسی مدت میں اس کی درآمدات 19.1 فیصد بڑھی تھیں۔ جاری حسابات کے خسارے کو محدود رکھنے میں برآمدات میں معمولی اضافے اور ترسیلاتِ زر میں معقول نمو سے بھی مدد ملی۔ تاہم جاری حسابات کے خسارے کی فنانسنگ دشوار رہی کیونکہ نجی (بیرونی براہ راست سرمایہ کاری اور نجی قرضے) اور سرکاری رقوم کی آمد خسارے کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھی۔

چنانچہ جاری حسابات کے بیشتر خسارے کو ملک کے اپنے وسائل سے پورا کیا گیا، جس سے اسٹیٹ بینک کے خالص سیال زر مبادلہ کے ذخائر آخر دسمبر 2018ئتک کم ہو کر 7.2 ارب ڈالر رہ گئے۔ تاہم گذشتہ چند دنوں کے دوران دو طرفہ سرکاری رقوم کے حصول نے اسٹیٹ بینک کے خالص سیال زر مبادلہ ذخائر کو بڑھا کر 8.2 ارب ڈالر کرنے میں مدد دی ہے ، جس سے ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر 25 جنوری 2019ء کو 14.8 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ اب تک کیے جانے والے استحکام کے اقدامات کے اثرات بتدریج ظاہر ہو رہے ہیں

معاشی بے یقینی کمی کے باعث اعتماد بڑھ رہا لیکن پی ایس ڈی پی اخراجات میں کمی کے باوجود مالیاتی خسارے نے ابھی تک مجموعی یکجائی کی علامات ظاہر کرنی ہیں، اگرچہ جاری حسابات کے خسارے میں بتدریج نمایاں بہتری آئی ہے ، تاہم خسارے کی سطح بلند ہے ،حکومتی قرضوں کی جدولی بینکوں سے اسٹیٹ بینک کو منتقلی کے نمایاں رجحان کے باعث وسط مدت میں مہنگائی کا دباؤ پیدا ہونے کا خدشہ ہے ، یکجائی کے اقدامات کے معیشت پر بتدریج اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم مہنگائی کا مخفی دباؤ برقرار ہے۔ مذکورہ صورت حال اور تفصیلی غور و خوض کے بعد زری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ میں 25 بی پی ایس اضافہ کر کے اسے 10.25 فیصد کر دیا ہے جو یکم فروری 2019ء سے نافذالعمل ہو گا۔