آئیڈیل ازم اور انسان

614

جس طرح پانی اور غذا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح مثالیت پسندی یا آئیڈیل ازم کے بغیر انسان، انسان اور زندگی، زندگی نہیں بن سکتی۔ مگر فی زمانہ زندگی کے اکثر دائروں میں آئیڈیل ازم ایک خوف بن چکا ہے۔ اس کی ایک مثال خورشید ندیم کے کالم کا یہ اقتباس ہے۔ خورشید ندیم لکھتے ہیں۔
’’کچھ تو وہ ہیں، جن کے دماغ میں اخلاص ہی پایا جاتا ہے۔ ان سے اظہار ہمدردی کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کچھ وہ ہیں جو سیاسی حرکیات کو سمجھتے اور جانتے ہیں کہ سیاست تاریخ کے کسی دور میں بھی سماجی حقائق سے لاتعلق اور بے نیاز نہیں رہی۔ سیاست میں مثالیت پسندی سے بڑا دھوکا کوئی نہیں۔ اُن کو خبر ہے کہ ہم انسانوں کی بستی میں زندہ ہیں، فرشتوں کے شہر میں نہیں۔ یہاں انسانوں کی تقسیم بھی ایسی نہیں کہ صالحین ایک طرف کردیے گئے ہوں اور شیاطین دوسری طرف۔ پھر یہ کہ نہ کوئی سراپا شر ہے اور نہ کوئی سراپا خیر۔ کہیں شر غالب ہے اور کہیں خیر۔ شر اور خیر کی صورتیں بھی مختلف ہیں‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 19 جنوری 2019)
خورشید ندیم کا خیال ہے کہ سیاست میں آئیڈیل ازم سے بڑے دھوکے کا تصور ممکن نہیں۔ ہم انسانوں کی بستی میں زندہ ہیں فرشتوں کی بستی میں نہیں۔ مثالیت پسندی کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ زندگی کے کسی ایک شعبے کے ساتھ نہیں۔ یعنی زندگی میں یا تو آئیڈیل ازم ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ مگر خورشید ندیم نے سیاست کو پوری زندگی سے الگ کرلیا ہے۔ یعنی ان کا خیال ہے کہ مذہب اور ادب میں تو آئیڈیل ازم ہوسکتا ہے مگر سیاست میں نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ خورشید ندیم صاحب نے آئیڈیل ازم پر کالم تو لکھ ڈالا ہے مگر انہیں آئیڈیل ازم کے معنی معلوم نہیں۔ زندگی کو ٹکڑوں میں بانٹنا ویسے بھی غیر مناسب بات ہے اس لیے کہ زندگی ایک اہم آہنگ کُل یا ایک whole ہے اور پوری زندگی پر ایک ہی اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ آدمی گھر میں تو ایماندار ہو مگر دفتر میں بے ایمان ہو۔ ماں باپ اور بیوی بچوں سے تو اچھا سلوک کرتا ہے مگر دوسرے انسانوں کے ساتھ برا سلوک کرتا ہو۔ اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو وہ ایک مثالیت پسند انسان کیا صرف انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں۔ مگر خورشید ندیم سیاست میں آئیڈیل ازم کے خلاف کیوں ہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے عاشق ہیں۔ میاں نواز شریف بدعنوان ہیں۔ ان پر ملک و قوم سے غداری کا الزام ہے۔ ان کے امریکا نواز اور بھارت پرست ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں۔ ان کا ذاتی تشخص تقوے، علم اور کردار سے نہیں، سرمائے اور سری پائے سے متعین ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے میاں صاحب کا جمہوریت وغیرہ سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ چناں چہ میاں نواز شریف آئیڈیل ازم کے معیار پر کیا زندگی کے کسی بھی معیار پر پورے نہیں اُترتے۔ اتفاق سے دوسرے مقبول عوام سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کا حال بھی میاں نواز شریف اور نواز لیگ سے مختلف نہیں۔ چناں چہ سیاسی دائرے میں آئیڈیل ازم کسی کی بھی ضرورت نہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا مسئلہ سیاست کا نہیں جب زندگی ہی میں آئیڈیل ازم نہیں ہے تو پھر سیاست میں آئیڈیل ازم کہاں سے آئے گا؟۔
یہ کتنی عجیب و غریب بات ہے کہ معاشی اور سماجی دائرے میں ہمیں آئیڈیل ازم بہت اچھا لگتا ہے۔ چناں چہ ہر شخص ’’امیر‘‘ بننا چاہتا ہے اور بڑے عہدے اور منصب پر فائز ہونا چاہتا ہے۔ جس کی آمدنی 20 ہزار ماہانہ ہے وہ 50 ہزار ماہانہ کمانا چاہتا ہے، جو لکھ پتی ہے وہ کروڑ پتی بننے کا خواہش مند ہے، کروڑ پتی کو ارب پتی کہلانے کی تمنا ہے، کلرک افسر بننا چاہتا ہے اور افسر چاہتا ہے کہ منسٹر ہوجائے تو مزہ آجائے۔ لیکن روحانی، اخلاقی اور علمی دائرے میں کوئی ’’Five Star‘‘ زندگی بسر نہیں کرنا چاہتا۔ ان دائروں کے تاج محلوں پر کسی کی نظر نہیں جاتی۔ ان دائروں میں سب ’’جھگی‘‘ پر ’’قناعت‘‘ کیے رہتے ہیں۔ ان دائروں میں لوگ ارب پتی اور کروڑ پتی کیا لکھ پتی بھی نہیں بنا چاہتے۔ ان دائروں میں لوگ ہمیشہ ’’کلرک‘‘ رہنا چاہتے ہیں کبھی ’’افسر‘‘ نہیں بننا چاہتے۔ ’’روحانی کلرک‘‘ ’’تہذیبی کلرک‘‘ اور ’’علمی کلرک‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔
مثالیت پسندی ایک معیار ہے، ایک پیمانہ ہے۔ معیار اور پیمانہ بتاتا ہے کہ انسان کتنا کافی یا کتنا ناکافی ہے۔ ناکافیت کا تعین ہو جاتا ہے تو انسان کو پھر ’’کافی‘‘ بنے کی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ خارجی جدوجہد بھی اور داخلی جدوجہد بھی۔ پھر اسے اپنی عادتوں کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ پھر اسے اپنے خیالات اور نظریات کو بدلنا پڑتا ہے۔ پھر اسے اپنے جذباتی سانچے کی تشکیل نو کرنی پڑتی ہے۔ پھر اسے ’’نیا حال‘‘ تخلیق کرنا پڑتا ہے۔ یہ کام آسان نہیں۔ چناں چہ انسان یا تو تبدیلی کی طرف دیکھتا ہی نہیں یا دیکھتا ہے تو اسے السلام علیکم کہہ کر اس سے رخصت طلب کرلیتا ہے۔
دنیا میں جتنے بھی انبیا آئے وہ ان معنوں میں مثالیت پسند تھے کہ ان کے پاس کچھ برتر اصول اور کچھ برتر خیالات تھے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ ان برتر اصولوں اور خیالات کو خود بسر کرکے دکھایا بلکہ اپنے پیروکاروں سے بھی تقاضا کیا کہ وہ بھی ان اصولوں اور خیالات کو بسر کرکے دکھائیں۔ انبیا کی پیدا کردہ تبدیلی یا Transformation نے ہر ’’موجود‘‘ کو ’’ممکن‘‘ بنادیا۔ اس کی مثال خلفائے راشدین ہیں۔ ابوبکرؓ صرف ابوبکر تھے اور ان کا صدیق اکبر ہونا صرف ’’ممکن‘‘ تھا مگر رسول اکرمؐ کی تعلیم و تربیت اور صحبت نے ابوبکرؓ کے ’’ممکن‘‘ کو ان کا ’’موجود‘‘ بنادیا۔ عمرؓ کی حقیقت صرف عمر ہونا تھی۔ آپ کے لیے فاروق اعظم ہونا صرف ایک امکان تھا مگر رسول اکرمؐ کی تعلیم و تربیت اور صحبت نے اس ’’امکان‘‘ کو ’’موجود‘‘ کردیا۔ عثمانؓ صرف عثمان تھے اور عثمان غنیؓ ہونا صرف ایک امکان تھا مگر رسول اکرمؐ کی تعلیم و تربیت اور صحبت نے عثمان کو عثمان غنیؓ بنا دیا۔ علیؓ کی حقیقت صرف علی ہونے میں تھی، علی مرتضیٰ ہونا صرف ایک امکان تھا مگر رسول اکرمؐ کی تعلیم و تربیت اور صحبت نے علیؓ کو ’’علی مرتضیٰؓ‘‘ کردیا۔ مثالیت پسندی کی پہچان یہی ہے کہ وہ انسان کو ہمیشہ ارتقا پر رکھتی ہے اور اس کے ممکنات کو اس کے موجود میں ڈھالتی رہتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو انسانوں کی تاریخ حیوانوں کی تاریخ کے سوا کچھ بھی نہ ہوتی۔
مثالیت پسندی صرف مذاہب کی تاریخ کا حصہ نہیں۔ فلسفے کی روایت میں بھی مثالی انسان اور مثالی ریاستیں زیر بحث آتی رہی ہیں۔ افلاطون کی مثالی ریاست ’’جمہوریہ‘‘ تھی اور افلاطون کا مثالی انسان ’’متوازن انسان‘‘ تھا۔ افلاطون کے یہاں انسان کے ’’توازن‘‘ پر اتنا زور ہے کہ اس نے شاعروں کو یہ کہہ کر اپنی ریاست سے نکال باہر کیا کہ یہ جذبات کو اُبھار کر انسان اور معاشرے کو غیر متوازن بناتے ہیں۔ ڈیکارٹ کا مشہور زمانہ فقرہ ہے۔ I Think therefor I am۔ یعنی میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔ یہی ڈیکارٹ کا تصور انسان ہے۔ یہی اس کا مثالی انسان ہے۔ نٹشے کا مثالی انسان فوق البشر یا super man ہے جو طاقت اور شوکت کا مظہر ہے۔ کارل مارکس کی مثالی ریاست پہلے مرحلے میں سوشلسٹ اور دوسرے مرحلے میں کمیونسٹ معاشرہ تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ انسان کا فکری اور سیاسی ارتقا ریاست کے وجود کو بھی فنا کردے گا۔ اتفاق سے اس کی نوبت ہی نہ آسکی اور مارکس کی سوشلسٹ ریاست کمیونسٹ معاشرے میں ڈھلنے کے بجائے سرمایہ دارانہ معاشرے میں ڈھل گئی اور اس کے ساتھ ہی مشترکہ ملکیت کا حامل سوشلسٹ انسان بھی مر گیا۔ دوستو وسکی کا مثالی انسان اس کے ناول ایڈیٹ کا پرنس مشی گن ہے۔ پرنس مشی گن کی شخصیت کا جوہر اس کا پاک طینت ہونا ہے مگر یہ پاک طینیتی اتنی کمزور ہے کہ دوستو وسکی کا مثالی انسان جدید زمانے کے ماحول سے نبرد آزما ہونے میں ناکام ہوجاتا ہے اور نفسیاتی اسپتال واپس چلا جاتا ہے۔ کبھی معاشرے میں نہ آنے کے لیے۔ اقبال کا مثالی انسان اس کا مردِ مومن ہے۔ اقبال کے مومن کی دو تصویریں یہ ہیں۔
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
……….
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
لیکن خورشید ندیم کا اصرار ہے کہ مثالیت پسندی سیاست کے میدان میں سب سے بڑے دھوکے کی حیثیت رکھتی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو وہ کہہ رہے ہیں کہ سیاست کے دائرے میں ’’Ideals‘‘ کی بات نہ کرو بس سیاست کے ’’حاضر و موجود‘‘ پر گزارا کرو۔ اس سلسلے میں کچھ معاملات زیر بحث آچکے۔ دو معاملات پر مزید گفتگو کرلیتے ہیں۔
اس سلسلے کا پہلا معاملہ یا مسئلہ یہ ہے کہ اگر خورشید ندیم کہتے ہیں کہ سیاست میں مثالیوں کی بات نہ کرو حاضر و موجود پر گزارا کرو تو وہ کس منہ سے جرنیلوں سے یہ کہتے ہیں کہ وہ سیاست میں مداخلت نہ کریں۔ جرنیلوں کے پاس طاقت ہے اور طاقت خود کو سب سے بڑا اصول سمجھتی ہے۔ چناں چہ اسے سیاست میں مداخلت سے نہیں روکا جاسکتا۔ مطلب یہ کہ ہمیں پھر اس دائرے میں بھی کسی ’’جمہوری آئیڈیل‘‘ یا ’’آئینی آئیڈیل‘‘ سے دست کش ہونا پڑے گا اور کہنا پڑے گا کہ جرنیلوں کے دائرے میں آئینی یا جمہوری آئیڈیل کی بات سب سے بڑا دھوکا ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی کے مختلف دائروں میں رشوت کا چلن عام ہے۔ ہمارا کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ یعنی رشوت ہماری زندگی کا حاضر و موجود ہے۔ خورشید ندیم سے پوچھا جانا چاہیے کہ آخر کوئی رشوت پر اعتراض کرے اور معاشرے کو رشوت سے پاک کرنے کا نعرہ لگائے تو کس بنیاد پر؟ اس لیے کہ رشوت سے پاک معاشرے کا خیال ایک طرح کا آئیڈیلزم ہے۔ ایک مسئلہ یا معاملہ تو یہ ہے۔
دوسرا معاملہ یا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم سیاست میں ’’حاضر و موجود‘‘ کو گوارا کرلیں تو ہمیں اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ حاضر و موجود کی سطح مزید گرسکتی ہے۔ یعنی اگر ہم نواز شریف، آصف زرداری اور الطاف حسین کو قبول کرلیں تو اندیشہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے بعد جو لوگ سامنے آئیں گے وہ ان سے بھی گئے گزرے ہوں گے۔ یہ بات مذاق میں نہیں کہی گئی۔ ایک وقت تھا کہ امریکا کا صدر کینیڈی اور اوباما تھا اور ایک وقت یہ ہے کہ امریکا کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ ایک وقت تھا کہ بھارت گاندھی اور نہرو کے ہاتھ میں تھا اور ایک وقت یہ ہے کہ ہندوستان نریندر مودی کے ہاتھ میں ہے۔ ایک وقت تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بھٹو کے پاس تھی جن کے بارے میں بدعنوانی کا خیال بھی ذہن میں نہیں آتا تھا اور ایک وقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بدعنوانی میں ڈوبے ہوئے آصف زرداری کے پاس ہے۔
ایک وقت تھا کہ مسلم لیگ کے سربراہ محمد خان جونیجو جیسا شریف النفس شخص تھا اور ایک وقت یہ ہے کہ نواز لیگ کی باگ ڈور کرپشن کی علامت نواز شریف کے ہاتھ میں ہے۔ افسوس ان حقائق کے باوجود بھی خورشید ندیم لوگوں کو آئیڈیلزم سے اجتناب کرنے اور سیاست کے ’’حاضر و موجود‘‘ پر خوش رہنے بلکہ بھنگڑا ڈالنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ حالاں کہ اقبال نے اپنی معرکہ آرا نظم ’’امامت‘‘ میں فرمایا ہے۔
تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنہ ملتِ بیغا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطین کا پرستار کرے
ظاہر ہے اقبال کے مشورے کی روشنی میں انسان کو حاضر و موجود سے وہی بیزار کرے گا جو Ideals کا پرستار ہوگا۔ اقبال کی نظر میں ایسے شخص کا مقام یہ ہے کہ اقبال نے اسے ’’امام برحق‘‘ کہا ہے۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیا اقبال کی نظم کا آخری شعر خورشید ندیم یا ان جیسے لوگوں کے بارے میں ہے؟ آخر میاں نواز عہد حاضر کے ’’سلطان‘‘ ہی تو ہیں۔