موت کے انجکشن کی چبھن اس نے اپنی نس میں محسوس کی اور مسکرا کر آنکھیں بند کرلیں۔ ڈاکٹر نے نبض دیکھی اور اس کی موت کا اعلان کردیا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اس نے ایسی پرسکون موت پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ٹیکساس کی جیل میں ڈیتھ بیڈ پر یہ 37سالہ کار لافے ٹکر تھی۔ اس کی ماں جسم فروش عورت تھی۔ ماں کے ساتھ آتے جاتے وہ بچپن ہی سے اسی راہ پر چل پڑی تھی۔ نشے کا استعمال بھی اس کا معمو ل تھا۔ دس برس بعد اسے خیال آیا کہ اس پیشے کو چھوڑ کر کوئی اور کام کرنا چاہیے۔ اس نے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ مل کر گاڑی چھیننے کا منصوبہ بنایا۔ منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے واردات کے دوران کارلا اور اس کے بوائے فرینڈ نے گھبرا کر فائرنگ کردی۔ جس سے ایک امریکی جوڑا مارا گیا۔
کارلا اور اس کا بوائے فرینڈ موقعہ واردات سے فرار ہوگئے لیکن جلد ہی پکڑے گئے۔ پولیس نے انہیں عدالت میں پیش کردیا۔ کیس اتنا مضبوط تھا کہ جج نے انہیں سزائے موت سنانے میں کسی پس وپیش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کارلا اور اس کے بوائے فرینڈ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کردی۔ یہ سلسلہ چلتے کافی عرصہ گزر گیا۔ اس دوران جیل کے عملے نے دیکھا کہ کارلا جو شرابی اور انتہا درجے کی بد زبان تھی اس نے اچانک سب کچھ چھوڑ کر بائبل کا مطالعہ شروع کردیا۔ رفتہ رفتہ اس کی گالم گلوچ میں کمی آتی چلی گئی یہاں تک کہ اس نے بد زبانی بالکل ترک کردی۔ وہ جیل کے عملے اور قیدیوں سے بھی اچھے اخلاق سے پیش آنے لگی۔ اس کا بیش تر وقت اپنے سیل میں بائبل کے مطالعے میں گزرنے لگا۔ اس نے لوگوں سے ملنا جلنا اور بات چیت بھی کم کردی۔ ایک برس گزرا کہ کارلا کی پہچان ایک مبلغہ کی بن گئی۔ ایک ایسی مبلغہ جس کے الفاظ پُر اثر تھے، اتنے کہ دلوں میں اتر جاتے۔ اس نے جیل میں تبلیغ کرنا شروع کردی۔ عبادت اور ریاضت معمول بنا لی۔ اس نے قیدیوں کو متاثر کرنا شروع کردیا۔ جیل میں کئی قیدیوں کی زندگی بدل گئی۔ وہ لوگ جو کل تک اسے قاتلہ اور گالم گلوچ کرنے والی عورت سمجھتے تھے احترا ماً اس کے پیچھے چلنے لگے۔ جیل میں ایک روحانی ماحول پیدا ہوگیا۔
کارلا کی خبر میڈیا تک پہنچی تو وہ جیل پر ٹوٹ پڑا۔ ہر اخبار میں کارلاسر خیوں میں آگئی۔ لوگ اس کی فوٹو اٹھائے پھرنے لگے۔ اس کی معافی کے لیے مظاہرے ہونے لگے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکا میں کارلا بچاؤ مہم شروع کردی۔ احتجاج میں اتنی شدت آئی کہ پوپ جان پال نے پہلی مرتبہ عدالت سے کارلا کی معافی کی درخواست کرڈالی۔ لیکن عدالت نے اس کی موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ سزائے موت سے دوہفتے پہلے لیری کنگ نے سی این این کے لیے جیل میں اس کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویوکے بعد امریکا میں ہر شخص کا خیال تھا کہ یہ قاتلہ نہیں ایک معصوم ہستی ہے۔ لیری نے کارلا سے سوال کیا ’’کیا تمہیں موت کا خوف محسوس نہیں ہوتا؟‘‘ کارلا نے جواب دیا کہ ’’نہیں! میں اس ربّ سے ملنا چاہتی ہوں جس نے میری پوری زندگی ہی بدل ڈالی‘‘۔
اس دوران امریکی شہریوں نے ’’ٹیکساس بورڈ آف پارڈن اینڈ پیرول‘‘ کے سامنے رحم کی متفقہ اپیل پیش کی لیکن بورڈ نے شہریوں کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزا معاف کرنے سے انکار کردیا۔ وہاں سے مایوس ہوکر لوگ ٹیکساس کے گورنر کے پاس گئے اور اس کے گھر کے سامنے کارلا کی معافی کے لیے مظاہرہ کیا۔ امریکا کے سب سے بڑے پادری جیکی جیکسن نے بھی کارلا کی حمایت کردی۔ گورنر نے کارلا کی سزا معافی کی درخواستیں سنی اور فیصلہ دیا کہ مجھے کارلا اور جیکی جیکسن سے ہمدردی ہے لیکن مجھے گورنر قانون کے نفاذ کے لیے بنایا گیا ہے سزامعاف کرنے کے لیے نہیں۔ کارلا اگر فرشتہ بھی ہوتی تو قتل کی سزا معاف نہیں کی جاسکتی تھی۔ موت سے دو دن پہلے کارلا کے لیے رحم کی اپیل عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی۔ جج نے یہ کہہ کر درخواست واپس کردی’’اگر آج پوری دنیا بھی یہ کہے کہ یہ عورت کارلا نہیں کوئی مقدس ہستی ہے تو بھی امریکی قانون میں اس کے لیے ریلیف نہیں ہے جس عورت نے قتل کرتے ہوئے انسانوں کو رعایت نہیں دی اسے دنیا کا کوئی قانون رعایت نہیں دے سکتا ہم خدا کے سامنے ان دو لاشوں کے لیے جواب دہ ہیں جنہیں کارلا نے مار ڈالا‘‘۔
محترم امریکی جج کا فیصلہ بالکل درست تھا لیکن ان کی یہ بات درست نہیں کہ جس قاتل نے قتل کرتے ہوئے انسانوں کو کوئی رعایت نہیں دی اسے دنیا کا کوئی قانون رعایت نہیں دے سکتا۔ دنیا میں ایک ملک ہے جہاں کا قانون، جہاں کی عدالتیں، جہاں کے ادارے، جہاں کی حکومتیں قاتلوں کو سزا دینے میں نہیں سزا سے بچانے کے لیے اپنی تمام کوششیں وقف کردیتی ہیں۔ کراچی میں نوجوان سرفراز شاہ کو رینجر کے نوجوان نے کیمرے کی آنکھ کے سامنے بے دردی سے گولی ماردی۔ اس دن یوٹیوب پر دنیا نے اس قتل کے منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اگر کسی کو قتل کا یہ منظر دکھا ئی نہیں دیا تو وہ پاکستان کے محترم جج تھے، پاکستان کی محترم عدالتیں تھیں، پاکستان کے باوقار ادارے تھے۔ بااثر باپ کے چہیتے بیٹے شاہ رخ جتوئی نے نوجوان شاہ زیب کو سر عام فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ چھ سال سے وہ کراچی جیل میں وی آئی پی مہمان ہے۔ پاکستان کا قانون اور انصاف شاہ رخ جتوئی کی دولت کے آگے ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ پنجاب کے سیاسی خاندان کے ہونہار سپوت مصطفی کانجو نے لاہور کے کیولری گراؤنڈ میں 17سالہ نوجوان طالب علم زین کو سب کے سامنے قتل کرڈالا۔ انصاف کی متلاشی ماں طویل مدت تک انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں کے دھکے کھاتی رہی۔ پھر نہ جانے کہاں سے کیا کہا گیا کہ اس نے یہ کہہ کر ہمت ہاردی کہ میری دو بیٹیاں بھی ہیں۔ آج زین کی ماں اور بہنوں کی کسی کو خبر نہیں لیکن سنا ہے مصطفی کانجو ہمارے انصاف کے منہ پر کالک مل کے بیرون ملک عیش کررہا ہے۔ راؤ انوار چار سو سے زائد افراد کے قتل میں ملوث ہونے کے باوجود کسی بھی سزا سے محفوظ ہے۔ عزیر بلوچ کی ہماری کسی عدالت کو کوئی خبر نہیں۔
ہم آئے دن نہتے مسلمان شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے پر بھارت اور اسرائیل کی مذمت کرتے رہتے ہیں۔ 19جنوری 2019 دو ہفتے پہلے پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے ساہیوال کی ایک شاہراہ پر محمد خلیل، ان کی زوجہ نبیلہ، ان کی 13سالہ بیٹی اریبہ اور ڈرائیور ذیشان
کو سر عام گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ میڈیکل رپورٹ کے مطا بق جاں بحق ہونے والے چاروں افراد کو نہایت قریب سے 34گولیاں ماری گئیں۔ پشت سے سینے کی طرف چار گولیاں لگنے سے 13سالہ اریبہ کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ خاتون نبیلہ کو چار گولیاں ماری گئیں جن میں سے ایک سر پر لگی۔ خلیل کو 11گولیاں لگیں۔ ڈرائیور ذیشان کو 13گو لیاں لگیں۔ سر میں لگنے والی گولیوں سے اس کی ہڈیاں باہر نکل آئیں۔ زخمی ہونے والی منیبہ کے ہاتھ میں شیشہ نہیں بلکہ گولی لگی تھی جو اس کے داہنے ہاتھ میں سامنے سے لگی اور پار ہوگئی۔ زخمی ہونے والے دس سالہ عمیر کو لگنے والی گولی داہنی ران چیرتی ہوئی دوسری طرف نکل گئی۔ کئی دن تک یہ خبر میڈیا پر لیڈ اسٹوری کے طور پر بڑے جوش خروش سے پیش کی گئی لیکن رفتہ رفتہ یہ خبر پس منظر کی طرف سرکتی جارہی ہے۔ مقتول خلیل کے بھائی اور دیگر لواحقین در در انصاف کے لیے بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ وہ ادارے جن کا کام قاتلوں کو پکڑنا ہے بڑی تندہی اور جانفشانی سے اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے میں مصروف ہیں۔ وہ حکومت جو مدینے جیسی ریاست کے قیام کے وعدے کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہے اس میں وزیر اعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار سے لے کر کسی وزیر کو یہ فکر نہیں کہ روز قیا مت ربّ ذوالجلال اپنے پورے جاہ وجلال سے خلیل، نبیلہ اور ذیشان کے ساتھ ساتھ زمین میں زندہ گاڑے جانے والی بچی کی مثل ان سے سوال کریں گے کہ اریبہ کو کس جرم کی پاداش میں یوں قتل کیا گیا تو وہ اس ذوالجلال والقدر کو کیا جواب دیں گے۔ یہ واقعہ آئندہ چند ہفتوں اور مہینوں میں فراموش کردیا جائے گا اور کسی عدالت کسی جج کو یہ احساس نہیں ہوگا کہ ہم خدا کے سامنے ان لاشوں کے لیے جواب دہ ہیں جنہیں بااثر محکموں کے بااثر اہلکاروں نے مار ڈالا۔ آخر میں ایک سوال کیا فرق ہے اسرائیل، بھارت اور ہمارے سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں میں جو نہتے مسلمانوں کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔؟