کراچی مزدور رہنما لیا قت علی ساہی نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم کی طرف سے جاری کردہ فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائیگا جس میں ریاستی اداروں اور سیاسی قیادت کیلئے واضح پیغام ہے
ملک کی سالمیت اسی میں ہے کہ ملک کے دستور پر عمل درآمد کرتے ہوئے ریاست ملکی سطح پر رول آف لاء کی رٹ کو قائم کرے تاکہ ایک عام شخص کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو سکے اس فیصلے کے بعد ملکی سطح پر تمام محروم طبقوں کو بھی حوصلہ ملا ہے بالخصوص اُن لوگوں کو جنہوں نے جیلوں کی صوبتوں سمیت بہت سی مشکلات کا سامنا عدلیہ بحالی کی تحریک میں کیا ہے
بلکہ غداری کے مقدمات تک کا سامنا کیا اس طرح کے فیصلے عدلیہ بحالی کے فوری بعد جاری ہونے چاہیں تھے لیکن بد قسمتی کے ساتھ ایسا نہ ہوسکا ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وفاقی حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فوری طور پر جن اداروں اور سیاسی افراد کی نشاندھی کی گئی ہے کہ انہوں نے ذاتی مفادات کی خاطر فیض آباد دھرنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے ان کے خلاف قانونی کروائی عمل میں لائی جائے اور مستقبل کیلئے پارلیمنٹ کی سطح پر تمام سیاسی پارٹیوں اور منتخب اراکین کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے
سپریم کورٹ کے فیصلے پر مستقبل کا باقاعدہ لائحہ عمل طے کیا جائے تاکہ ریاست کے تمام ادارے ملک کے دستور کی روشنی میں اپنا کردار ادا کریں اگر فیض آباد دھرنہ فیصلے سے بھی سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں نے کوئی رہنما ئی حاصل نہ کئی تو آنے والا وقت کسی کو بھی معاف نہیں کرے گا پہلے ہی مفاد پرست عناصر نے ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر کی محنت کشوں اور سول سوسائیٹی کی تنظیمو ں کی طرف سے فیض آباد دھرنے کے فیصلے کو محروم طبقوں کیلئے روشنی کی کرن تصور کیا جا رہا ہے چونکہ گزشتہ ستر سالوں سے ملکی سطح پر پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں محنت کشوں کا بھی بد ترین استحصال کیا جا رہا ہے تمام طبقوں کو اُس وقت انصاف فراہم نہیں ہو سکتا جب تک ریاستی اداروں میں رول آف لاء کی رٹ قائم نہیں ہوگی۔