مُلّا عبدالسلام ضعیف۔۔۔ خدا کی قدرت!

1018

مُلّا عبدالسلام ضعیف 2000ء میں طالبان کے زیر انتظام امارت اسلامیہ افغانستان کے پاکستان میں سفیر تھے۔ افغانستان طالبان کی حکومت میں تعمیر نو کے جس دور سے گزر رہا تھا اس پر پوری دُنیا کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں۔ طالبان حکومت کو صرف چند ملکوں نے تسلیم کیا تھا جن میں پاکستان سرفہرست تھا، البتہ افغانستان میں آنے والی تبدیلی کو پوری عالمی برادری دلچسپی سے دیکھ رہی تھی اور اس کے لیے معلومات کی فراہمی کا ذریعہ اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے سوا کوئی دوسرا مرکز نہ تھا۔ چناں چہ اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی صحافیوں اور خود پاکستانی صحافیوں کے لیے افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف بڑی اہمیت اختیار کرگئے تھے۔ ملا ضعیف خود بھی اپنی اہمیت سے آگاہ تھے اور عالمی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، وہ اپنی حکومت کی سرگرمیوں سے عالمی اور پاکستانی میڈیا کو آگاہ کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً پریس کانفرنس کرتے رہتے، پشتو ان کی مادری زبان تھی جب کہ اردو، انگریزی اور فارسی پر بھی انہیں مکمل عبور حاصل تھا۔ وہ کسی مترجم کے بغیر صحافیوں کے سوالوں کے جواب بڑی روانی سے دیتے اور اپنی حکومت کے موقف کو بڑی وضاحت سے پیش کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب طالبان حکومت نے افیون کی کاشت اور منشیات کی تیاری پر پابندی لگائی تو انہوں نے پریس کو بتایا کہ افیون کے کاشتکاروں نے کتنی خوشدلی سے اس پابندی کو قبول کیا ہے اور انہیں اس مد میں کتنا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے اور طالبان حکومت اس نقصان کی تلافی کے لیے کیا اقدامات کررہی ہے۔ ملا ضعیف نے منشیات خاص طور پر ہیروئن کی تیاری اور اس کی سپلائی کو روکنے کے لیے بھی حکومت کے اقدامات پر تفصیلی روشنی ڈالی جس کا عالمی میڈیا میں بہت چرچا ہوا اور اسے طالبان حکومت کا زبردست کارنامہ قرار دیا گیا۔ امریکا نے جب نائن الیون کے ذمے دار اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم القاعدہ کو قرار دیتے ہوئے طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن کو اس کے حوالے کردیا جائے ورنہ وہ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا تو ملا ضعیف نے اُس وقت بھی ایک پریس کانفرنس میں اپنی حکومت کا موقف بیان کیا اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ گھر آئے مہمان کو دشمن کے حوالے کرنا افغان روایات اور اخلاقی قدروں کے خلاف ہے۔ اسامہ بن لادن ہمارے معزز مہمان ہیں، انہوں نے امیر امارت اسلامیہ افغانستان ملا عمر کے دستِ حق پرست پر بیعت لے رکھی ہے، ہم انہیں کسی ثبوتِ جرم کے بغیر امریکا کے حوالے کیسے کرسکتے ہیں۔ ہاں اگر امریکا کے پاس اسامہ بن لادن کے خلاف دہشت گردی کا ثبوت ہے تو وہ ہمارے سامنے پیش کرے، اگر اس کے ثبوت میں کوئی جان ہوئی تو ہم یہ معاملہ چند غیر جانبدار مسلمان ملکوں کے سپرد کردیں گے جو اسامہ بن لادن کو امریکا کے سپرد کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہوں گے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ افغانستان پر حملہ کرنے سے باز رہے گا۔ انہوں نے اطمینان سے جواب دیا ’’میں نہیں سمجھتا کہ امریکا یہ حماقت کرے گا وہ روس کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہے‘‘ لیکن ملا ضعیف کا یہ اطمینان رائیگاں گیا اور امریکا نے دو دن بعد ہی افغانستان پر پوری قوت سے حملہ کردیا اور پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کو برادر اسلامی ملک کے خلاف اپنا آلہ کار
بنالیا۔ جنرل پرویز مشرف نے انتہائی بے غیرتی، بے حمتی اور بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کے خلاف پاکستان کے تمام فضائی اور زمینی وسائل امریکا کے قدموں میں ڈال دیے۔ ملا ضعیف کا جنگ شروع ہوتے ہی اپنی حکومت سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا اور وہ سفارت خانے کے اندر عملاً محصور ہو کر رہ گئے تھے کہ اگلے دن گیٹ پر دستک ہوئی اور بھاری بوٹوں کی آواز سنائی دی۔ سفارت خانے کے اہلکار نے گیٹ کھولا تو سامنے پاکستانی فوجی کھڑے تھے، انہوں نے کہا کہ ہم ملا عبدالسلام ضعیف کو لینے آئے ہیں وہ امریکا کومطلوب ہیں اور امریکا ان سے پوچھ گچھ کرنا چاہتا ہے۔ ملا ضعیف بھی آوازیں سُن کر باہر آگئے تھے، انہوں نے پاکستانی فوجی سے بحث کرنا چاہی تو اس نے انہیں اپنی گرفت میں لے کر ان کی مشکیں کس دیں اور ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں ایک گاڑی میں ڈال دیا گیا۔ گاڑی کوئی آدھے گھنٹے تک چلتی رہی پھر انہیں گاڑی سے اُتار کر امریکیوں کے حوالے کردیا گیا۔ امریکی بھوکے شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑے، لاتوں، گھونسوں اور مُکوں کی بارش کردی پھر ان کے کپڑے تار تار کرکے انہیں زمین پر گرادیا گیا اور دیر تک ان پر تشدد ہوتا رہا۔
ملا عبدالسلام کا تخلص ضعیف ضرور تھا لیکن وہ جسمانی اعتبار سے ضعیف نہ تھے، قوی البحثہ اور نہایت مضبوط اعصاب کے مالک تھے، انہوں نے بہیمانہ تشدد کو نہایت جوانمردی سے برداشت کیا۔ تشدد کے دوران ان کی آنکھوں پر بندھی پٹی اُتر چکی تھی اور وہ دیکھ رہے تھے کہ ایک طرف امریکی ہیں تو دوسری جانب پاکستانی فوجی بھی صف باندھے کھڑے ہیں۔ وہ حیران تھے کہ پاکستان کل تک ان کا ہمدرد اور ساتھی تھا آج اسے کیا ہوگیا ہے۔ بہرکیف امریکی انہیں اَدھ مُوا کرکے افغانستان لے گئے جہاں کچھ دن انہیں بگرام جیل میں رکھا گیا پھر انہیں گوانتاناموبے کے بدنام زمانہ عقوبت خانے میں منتقل کردیا گیا جہاں وہ کئی سال تک امریکیوں کی درندگی کا سامنا کرتے رہے۔ ان پر کوئی الزام نہ تھا وہ تو اپنی حکومت کے پاکستان میں سفیر تھے اور سفیروں کو پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن سب سے پہلے تو جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی تابعداری میں ان کے ساتھ کمینگی کا مظاہرہ کیا پھر امریکیوں نے اپنی اصلیت دکھائی لیکن تابکے؟ وہ بالآخر ملا ضعیف کو رہا کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ملا رہا ہو کر افغانستان آئے تو سب سے پہلے انہوں نے امریکیوں کا غلیظ اور بھیانک چہرہ دنیا کو دکھانا ضروری سمجھا اور ’’گوانتاناموبے کی کہانی‘‘ پشتو میں لکھی جو پشاور سے شائع ہوئی، پھر اس کے اردو اور انگریزی تراجم بھی شائع ہوئے اور لوگوں نے بڑی دلچسپی سے یہ کتاب پڑھی۔ ملا ضعیف نے افغانستان میں گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ ویسے بھی ان کا تعلق طالبان کے عسکری ونگ سے نہیں تھا وہ اس کے انٹیلیکچوئل طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اب خدا کی قدرت دیکھیے کہ یہی ملا عبدالسلام ضعیف طالبان کی طرف سے امریکا کے ساتھ فوجوں کی واپسی پر مذاکرات کررہے ہیں اور امریکی نمائندے ان کے سامنے بھیگی بلی بنے ہیں۔ ان مذاکرات کی استدعا خود امریکیوں نے کی تھی اور پاکستان کو سہولت کار بنایا تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اب عاجز آگئے ہیں اور افغان جنگ پر اربوں ڈالر نہیں خرچ کرسکتے اور ملا ضعیف نہایت ملائم لہجے میں امریکیوں کو بتارہے ہیں کہ جب تک افغان سرزمین پر ایک بھی غیر ملکی فوجی موجود ہے جنگ جاری رہے گی۔ امریکیوں کی ملاضعیف سے مذاکرات کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے۔
فاعتبر ویااولی الابصار