! علیم خان کی گرفتاری

219

قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان کو گرفتار کرلیا۔ ان کی گرفتاری آمدن سے زائد اثاثے اور آف شور کمپنی رکھنے پر عمل میں آئی ہے۔ نیب کے طلب کرنے پر علیم خان بدھ کو ایک مرتبہ پھر نیب لاہور کے آفس میں پیش ہوئے تھے۔ جہاں تحقیقاتی افسران نے ان سے مختلف سوالات کیے۔ 2 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی تحقیقات میں وہ نیب حکام کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے، جس کے بعد انہیں مزید تفتیش کے لیے حراست میں لے لیا گیا تھا۔
علیم خان کیا گرفتار ہوئے ملک میں ایک شور برپا ہوگیا۔ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کا دوست گرفتار ہوجانا بڑی بات نہیں تھی مگر وزیراعظم عمران خان کا قریبی ساتھی پکڑا جائے اور چہار طرف خاموشی رہے یہ بھی تو ممکن نہیں تھا۔
علیم خان 2011 میں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ اس سے قبل وہ مشرف دور میں وزیر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ علیم خان ’’بڑے مالدار اور دل والے بھی ہیں‘‘۔ یہ دونوں خوبیاں بیک وقت ایک ساتھ کم لوگوں خصوصاً سیاست دانوں میں تو بہت ہی کم پائی جاتی ہیں۔ اس لیے گمان ہے کہ وہ جلد ہی نیب کے شکنجے سے آزاد ہوجائیں گے۔ ملک کے سیاسی حالات اور کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف جاری کارروائیوں کے تناظر میں یہ بات قابل اطمینان ہے کہ علیم خان کی گرفتاری پر اپوزیشن راہنماؤں نے کہا ہے کہ بلا امتیاز احتساب سے متعلق ہماری شکایت دور ہوئی ہے‘ احتساب سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن)کے راہنما محمد زبیر نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کا شروع سے مطالبہ تھا احتساب کا عمل بلا امتیاز ہونا چاہیے، علیم خان کو حراست میں لیا گیا ہے تو یہ بڑی پیش رفت ہے۔ علیم خان بھی آمریت کی پیداوار ہے اس لیے انہیں مستقبل میں وزیراعلیٰ پنجاب بھی بننا ہوگا۔ جیسے میاں نواز شریف نے یہ اعزاز حاصل کیا۔ آمریت کے تخلیق کردہ سیاسی کردار اس قدر جلدی تو اس سے قبل کبھی بھی قانون کی گرفت میں نہیں آئے مگر علیم خان آگئے۔ ممکن ہے کہ وہ نواز شریف کی طرح وزیراعظم بھی بننا چاہتے ہوں۔
علیم خان کی گرفتاری سے نیب کے آزادانہ کردار کی پزیرائی ہورہی ہے لیکن اگر نیب ان پر لگے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہی اور تو نہ صرف علیم خان بلکہ عمران خان کے ’’کردار‘‘ کو بھی چار چاند لگ جائیں گے۔ وزیراعظم عمران کے چہرے کا اطمینان گواہی دے رہا ہے کہ ان کے قریبی دوست علیم خان کی گرفتاری ان کی سیاست کی کامیابی کے لیے ایک اچھا ’’سیگمنٹ‘‘ ثابت ہوگی اور علیم خان ایسے دھلے ہوئے کپڑے کی طرح باہر آجائیں گے جو داغدار ہونے کے بعد واشنگ مشین میں گھوم کر صاف ہوجاتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ علیم خان کی گرفتاری پی ٹی آئی سے منسلک کرپٹ عناصر کے احتساب کی ابتداء ہے۔ اگر یہ بات بھی درست تسلیم کرلی جائے تب بھی پی ٹی آئی کی حکومت کو یہ اعزاز حاصل ہوجائے گا کہ اس نے بغیر کسی مزاحمت کے اپنے ساتھی کی گرفتاری کے عمل کو تسلیم کیا۔ یہ اور بات ہے کہ پنجاب کے وزیر فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ ’’نیب نے علیم خان کو مجرم نہیں کہا اور نہ ہی وہ ملزم ہیں‘‘۔ اب یہ وضاحت تو چوہان صاحب ہی کریں گے کہ پھر احتساب بیورو نے انہیں کیوں اور کس حیثیت سے حراست میں لیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ علیم خان کی گرفتاری اس بات کا اشارہ ہے کہ آئندہ سندھ اور پنجاب سے بھی بڑے سیاسی عناصر کی گرفتاریاں ہوں گی۔ ممکن ہے کہ آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو گرفتار کرلیا جائے۔ علیم خان کی گرفتاری شاید نیب کی کسی اور بڑی بااثر شخصیت کی گرفتاری کی صورت میں ممکنہ ردعمل سے بچاؤ کی حکمت عملی ہو۔ علیم خان کو گرفتار کرکے نیب نے سب ہی ’’سیاسی ملزمان‘‘ کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب کوئی نہیں بچے گا۔