زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی پلیٹ فارموں کا استعمال ضروری ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک

254

گورنر اسٹیٹ بینک جناب طارق باجوہ نے کہا ہے کہ وہ بینکوں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیتے ہیں کہ وہ زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی کے پلیٹ فارموں سے استفادہ کریں۔ انہوں نے یہ بات حیدرآباد میں 07 فروری 2019ء کو زرعی قرضہ مشاورتی کمیٹی (اے سی اے سی) کے وسط مدتی جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔

اپنے افتتاحی کلمات میں گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ زرعی قرضہ مشاورتی کمیٹی کے اجلاسمختلف علاقوں، خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں منعقد کرنا ملک بھر میں زرعی قرضوں کو فروغ دینے سے ہماری سنجیدہ وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ گذشتہ  اجلاس بلوچستان اور آزاد جموں و کشمیر میں منعقد ہوئے تھے اور ہم پہلی مرتبہ حیدرآباد میں یہ اجلاس منعقد کر رہے ہیں تا کہ علاقے میں زرعی قرضوں کو فروغ دیا جا سکے۔ جولائی تا دسمبر 2018ء کے دوران  زرعی قرضوں میں پیش رفت کا جائزہ لیتے ہوئے گورنر نے زرعی قرضوں کی ترقی کے سلسلے میں بینکوں کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے بتایا کہ مالی سال 2018-19ء کے دوران بینکوں نے 527.3  ارب روپے کے قرضے دیے جو مجموعی تفویض کردہ ہدف کا 42.2 فیصد بنتا ہے اور گذشتہ برس کی اسی مدت میں تقسیم کیے گئے قرضوں سے 22 فیصد زیادہ ہے۔ آخر دسمبر 2018ء تک  واجب الادا زرعی قرضے بڑھ کر 521 ارب روپے تک پہنچ گئے جو گذشتہ برس 442 ارب روپے تھے۔ یہ اس میں 17.9 فیصد کی نمو کو ظاہر کرتا ہے۔ آخر دسمبر 2018ء تک واجب الادا قرض گیروں (outstanding borrowers) کی تعداد بھی 12.8 فیصد نمو کے ساتھ بڑھ کر 3.90 ملین تک پہنچ گئی ہے جو گذشتہ برس 3.46 ملین تھی۔ گورنر  نے چھوٹے اور نظرانداز کاشت کاروں کو فنانسنگ کی فراہمی پر مائیکروفنانس بینکوں اور اداروں کی کوششوں کو سراہا۔

گورنر اسٹیٹ بینک جناب طارق باجوہ  نے نشاندہی کی کہ مالی سال 2018-19 میں معقول ترقی دکھانے کے باوجود اس صنعت کو ابھی تک طلب و رسد کے بعض چیلنجوں کا سامنا ہے۔ خاص طور پر انہوں نے زرعی قرضوں کی فراہمی میں جغرافیائی فرق کی نشاندہی کی کیونکہ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں قرضوں کی تقسیم ابھی تک اپنے اہداف سے بہت کم ہے۔ اسی طرح بینکوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ چھوٹے کاشت کاروں کو پیداواری قرضے دینے پر خصوصی توجہ مرکوز کریں۔ انہوں نے  بینکوں پر زور دیا کہ وہ زرعی قرضہ افسران کی خدمات حاصل کر کے زرعی انفراسٹرکچر کے لحاظ سے اپنی رسائی میں اضافہ کریں۔ گورنر نے جولائی تا دسمبر 2018ء کے دوران گذشتہ  برس کی اسی مدت کے مقابلے میں قرضوں کی تقسیم میں 80 فیصد نمو حاصل کرنے پر اسلامی بینکوں کی کوششوں کو بھی اجاگر کیا۔ تا ہممجموعی تقسیم میں ان کا حصہ ابھی تک مجموعی زرعی قرضوں کے 3 فیصد سے بھی کم  ہے۔

گورنر نے بینکوں پر زور دیا کہ وہ مالی سال 2018-19ء کے دوران زرعی قرضوں کا1250 ارب روپے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر مالی خدمات کے لحاظ سے پسماندہ علاقوں پر مرتکز طرز فکر اختیار کرتے ہوئے زرعی قرضوں میں معیاری تبدیلی لائیں۔ انہوں نے اسلامی بینکوں اور کمرشل بینکوں کی اسلامک ونڈوز پر زور دیا کہ وہ خاص طور پر مذہب کے لحاظ سے حساس کاشت کار برادری تک اپنی رسائی کو توسیع دینے کے لیے فعال  کردار ادا کریں۔

گورنر کے افتتاحی کلمات کے بعد ایک تفصیلی پریزینٹیشن دی گئی جس میں  مالی سال 2018-19ء کی پہلی ششماہی میں زرعی قرضوں کے متعلق بینکوں کی کارکردگی کا جائزہ انہیں دیے گئے اہداف کی بنیاد پر لیاگیا جبکہ تشویش کا باعث شعبوں کو بھی اجاگر کیا گیا۔ کمیٹی کو معروف زرعی پیشہ ور ماہرین  اور بینکوں کے نمائندوں نے زرعی قرضوں  کے حوالے سے مختلف اختراعی اقدامات سے آگاہ کیا: (i)پنجاب میں زرعی قرضوں کے لیے زرعی ریکارڈ  منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم اختیار کرنا (ii) بلند قدر کی حامل فصلوں کو فروغ دینا (iii) معیاری زرعی خام مال کی فراہمی کے لیے ایک پلیٹ فارم کی تیاری اور (iv) گلگت بلتستان میں گلہ بانی/ ڈیری کے لیے ویلیو چین فنانسنگ کے ذریعے خواتین کو با اختیار بنانا۔

اجلاس میں اسٹیٹ بینک کے سینئر افسران، کمرشل، اسپیشلائزڈ اور مائیکروفنانس بینکوں و انسٹی ٹیوشنز کے صدور اور سینئر ایگزیکٹوز، وفاقی و صوبائی حکومتوں اور صوبائی زرعی چیمبروں  کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔

XXXXXXXXXXXXXXXXX