پاکستان اور آزادکشمیر میں پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کی تیاریاں جاری تھیں کہ اس سے دو دن پہلے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ جموں وکشمیر اور لداخ کا دورہ کرنا ضروری سمجھا۔ انہوں نے تینوں مقامات پر مختلف ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا۔ جموں اور لداخ میں نریندر مودی کی آمدو رفت معمول کی کارروائی رہی مگر وادی کشمیر میں جو اکہتر سال سے بالعموم اور تین عشروں سے بالخصوص آتش فشاں کی مانند لاوہ اُگل رہی ہے نریندرمودی کی آمد ہمیشہ کی طرح غیر معمولی رہی۔ نریندرمودی کی وادی میں آمد کے موقع پر عام ہڑتال تھی۔ مشترکہ مزاحمتی فورم کے قائدین سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک اس ہڑتال کی اپیل کے بعد نظر بند کر دیے گئے اور عوام کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی آزادی نہیں تھی۔ کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں نریندر مودی کی تقریر دھمکی آمیز تھی اور ان کی گفتگو غصے، انتقام اور جھنجلاہٹ کا آمیزہ تھی۔ ان کا غصہ بجا مگر انتقام سفاکانہ ہے۔ کشمیریوں سے ان کاغصہ اس لحاظ سے بجا ہے کہ برسر اقتدار آنے کے بعد وہ نومبر 2015 کو وادی کے دورے پر آئے۔ شیر کشمیر اسٹیڈیم میں سرکاری ملازمین، سادہ کپڑوں میں ملبوس فوجی اور نیم فوجی اور پولیس اہلکاروں سے خطاب کیا۔ ان کے دائیں پہلو میں مفتی سعید اور ان کی صاحبزادی محبوبہ مفتی بھی تھیں۔ اس جلسے میں مودی نے کشمیر کے لیے آٹھ سو ارب ڈالر کے اقتصادی پیکیج کا اعلان کرکے اپنے تئیں ہوا میں شاخِ زیتوں لہرادی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس پیسے سے کشمیر کو جدید، ترقی پسند اور خوش حال بنائیں گے۔ گویا کہ وہ کشمیر یوں کو جدیدیت اور ترقی پسندی کا سبق پڑھانے کا پورا ارادہ رکھتے تھے۔ انہوں نے ’’دلی کا خزانہ آپ کے لیے ہے خزانہ ہی نہیں دل بھی آپ کے لیے ہے‘‘۔ جیسے جملے ادا کرکے کشمیریوں کا دل لُبھانے کی پوری کوشش کی تھی مگر مودی جی یہ ’’شاخ زیتون‘‘ کچھ اور ہی اُلٹا اثر چھوڑ گئی۔
بھارت کی طرف سے ایک مکمل اور باوقار سیاسی پیکیج کے منتظر کشمیریوں نے اقتصادی پیکیج کو اپنے جذبات اور قربانیوں کا مول تول گردانتے ہوئے اپنی تحریک میں زیادہ شدت پیدا کردی یوں وہ نگاہوں کو خیرہ اور جذبات کو بے ایمان کردینے والا یہ بھاری بھرکم اقتصادی پیکیج کہیں ہواؤں میں تحلیل ہوگیا۔ اس کے بعد اس پیکیج کا کیا ہوا کچھ خبر نہ ہو سکی۔ دلچسپ بات یہ کہ جب اسٹیڈیم کے اندر نریندر مودی اقتصادی پیکیج کی شاخ زیتون لہرا رہے تھے تو اسٹیڈیم سے باہر پورا معاشرہ شہر وقصبات ویرانیوں کے منظر پیش کر رہے تھے۔ ایک زوردار ہڑتال کے ذریعے کشمیری عوام اقتصادی امداد قبول اور وصول کرنے سے انکار کر رہے تھے۔ جب نریندر مودی نے یہ جان لیا کہ گاجر کا استعمال کارگر نہیں تو انہوں نے مطلق طاقت اور چھڑی کا استعمال بڑھا دیا وہ دن ہے کہ آج کا دن بھارت وادی میں طاقت کا پہلا اور آخری حل بنائے ہوئے۔ مطلق طاقت کی اس پالیسی کو اپنائے ہوئے بھی برسوں گزر گئے مگرکشمیر ی نہ تو اقتصادی پیکیج سے رام ہورہے ہیں اور نہ ہی طاقت کا بے محابا استعمال انہیں اپنے عزائم اور ارادوں سے باز رکھ پایا ہے۔ اس بار نریندر مودی کشمیر آئے منظر وہی پرانا تھا بلکہ اس کچھ زیادہ ہی دلچسپ وعجیب تھا۔ وہ خالی اور ویران جھیل ڈل میں تنہا پھر رہے تھے اور باہر پورا کشمیر ویرانی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ وادی میں نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ہم دہشت گردی کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دیں گے۔ عسکریت کے نام پر یہ دوسرے لفظوں میں کشمیریوں کو مزید برے انجام سے ڈرانے کی کوشش تھی۔ مشترکہ مزاحمتی فورم نے مودی کی دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے وادی میں ہونے والی ہڑتال کو بھارت کے لیے نوشت�ۂ دیوار قراردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خود بھارتی اداروں کے مطابق کشمیر میں تین سو حریت پسند سرگرم عمل ہیں مگر بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کشمیر میں کیا کررہی ہے؟۔ نریندر مودی کے دورہ کشمیر کی سب سے دلچسپ اور مضحکہ خیز بات ان کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک تصویر تھی۔ جس کا مذاق بھارتی میڈیا اور عوام نے ہی نہیں وادی کے سیاست دانوں عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے بھی اُڑایا۔ یہ تصویر سری نگر کے وسط میں برف سے ڈھکی ہوئی جھیل ڈل میں لی گئی تھی۔ نریندر مودی قراقلی پہنے خصوصی طور پر تیار کیے ایک بکتر بند نما شکارے پر کھڑے مودی پرجوش انداز میں ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے ہے کہ نریندر مودی جھیل ڈل میں عوام کے جم غفیر کو جوابی ہاتھ ہلا رہے ہوں۔ حقیقت یہ تھی کہ جھیل ڈل ویران تھی۔ جھیل سے باہر شہر ویران اور گلیاں سنسان تھیں۔ ان کے عقب میں برف سے ڈھکے پہاڑ تھے اور سامنے کیمرہ مین جو بالی ووڈ کی کسی فلم کی طرح ان سے فرمائشی شوٹنگ کر وارہا تھا۔ سب سے دلچسپ تبصرہ محبوبہ مفتی کے ٹویٹ میں یوں تھا کہ ’’مودی کشمیر میں اپنے انگنت خیالی دوستوں کو ہاتھ رہے ہیں‘‘۔ بھارت کے این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر بھی اسی ٹویٹ کو عنوان بنایا گیا۔
سوال یہ ہے کہ نریندر مودی کی طرف سے یہ کشمیر کو آخری سلام ہے؟۔ اگلے چند ماہ میں بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات منعقد ہونا ہیں۔ پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج نے مودی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے عین ممکن ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار حاصل نہ کرسکیں اور یوں وہ کشمیر کو الوداعی سلام کر رہے ہوں۔ ان کا المیہ یہ تھا کہ جواب میں ہاتھ ہلانے والا ساتھ لائے گئے کیمرہ مین کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔ کبھی کبھی طاقت کی بھی کیا عجب بے بسی دیکھنے کو ملتی ہے۔