مختصر مختصر

246

’’آلو پتر! میرا کھانسی کا شربت لے آیا؟‘‘
’’اماں کتنی بار کہا ہے مجھے آلو مت کہا کرو۔ میرا نام فواد ہے فواد چودھری‘‘۔
’’پتر تیری شکل ہی آلو جیسی ہے۔ پھر جس طرح آلو ہر کھانے میں ڈالا جاسکتا ہے پتر تو بھی ہر حکومت میں ڈل جاتا ہے۔ پرویز مشرف کی حکومت میں تو شامل تھا۔ زرداری حکومت میں تو شامل تھا۔ چل چھڈ یہ باتیں، یہ بتا تو کھانسی کا شربت لایا کہ نہیں لایا؟‘‘
’’اماں! کھانسی کا شربت پینا فرض نہیں ہے۔ قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ کھانسی ہو تو کھانسی کا سیرپ پیو۔ فیر اماں اصل بات یہ ہے کہ جتنے پیسے تونے دیے تھے اتنے میں اب کھانسی کا شربت نہیں آسکتا‘‘۔
’’پتر باقی پیسے اپنے پاس سے ملا دینا تھے‘‘۔
’’اماں بات یہ ہے کہ مجھے اپنے سکھ دوستوں سے ملنے کے لیے کرتار پور باڈر بھی جانا تھا۔ فلمی صنعت کا فروغ بھی لازم ہے لہٰذا واپسی میں میں نے فلم بھی دیکھنی تھی۔ اتنے اہم کاموں میں پیسہ خرچ کرنے کے بعد میرے پاس اماں تیرا کھانسی کا شربت لانے کے لیے پیسے نہیں بچتے۔ اماں جب تیرے پاس پورے پیسے ہوں دے دینا میں تیرا کام کردوں گا‘‘۔
……….
وہ ایک نظر۔ عقیدت کا سارا قلعہ مسمار کر گئی۔ اتنا بڑا فریب، اتنا بڑا دھوکا! میں غصے سے کھول اٹھا۔
وہ ایک بے بدل عالم، صوفی اور مبلغ ہیں۔ کئی برس سے میں ان کے درس کے حلقوں میں شرکت کررہا ہوں۔ ہر درس میں وہ سادگی پر زور دیتے ہیں۔ وہ سادگی کو ایمان قرار دیتے ہیں۔ اپنی بات کو وہ اللہ کی آخری کتاب کی آیات اور نبی کریمؐ کی احادیث سے اس طرح زینت دیتے ہیں کہ قلوب منور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس چکا چوند مادی دنیا میں ہم سرمایہ حیات مادی اشیا کے حصول میں صرف کرتے چلے جارہے ہیں۔ جب کہ یہ دنیا اور اس کی تمام اشیا عارضی ہیں۔ زندگی کی پریشانیوں سے نجات کا ایک ہی حل ہے پرتعیش اشیا سے نجات حاصل کرکے سادہ زندگی گزاریں۔ ان کے ہر درس میں عنوان کچھ بھی ہو یہ باتیں ضرور شامل ہوتی ہیں۔
کل پہلی مرتبہ میں ایک اہم کام سے ان کے گھر گیا۔ عقیدت سے میری آنکھیں جھکی ہوئی تھیں لیکن پھر میری عقیدت کا سارا قلعہ مسمار ہوتا چلا گیا۔ وہ ایک نظر! میں غصے سے کھول اٹھا۔ اتنا بڑا فریب، اتنا بڑا دھوکا، ایسی پُرتعیش زندگی! ان کے گھر کے ایک کونے میں گیزر جل رہا تھا۔
……….
تینوں بچے گھر آئے تب تک آنسو ان کی آنکھوں میں خشک ہو چکے تھے۔ ان کی چیخیں ساکت ہو چکی تھیں۔ ان کے زندہ رہنے کے تمام اسباب سر راہ ان سے چھین لیے گئے تھے۔ ماں کے وہ لب جو سونے سے پہلے ان کی پیشانیوں کو چوما کرتے تھے۔ باپ کے وہ دلگیر ہاتھ جو پیار سے انہیں اچھالتے تھے۔ اریبہ جو اُن کے ساتھ کھیلتی تھی۔ وہ سب دہشت گرد ان کی نظروں کے سامنے سفاکی سے قتل کردیے گئے تھے۔
اہل محلہ نے بچوں کو دیکھا تو ان کے سینے شق ہوگئے۔ ان کی سوچیں شل ہو گئیں۔ ہر آنکھ آنسوؤں سے چھلک اٹھی۔ لیکن بچوں کی آنکھوں میں ایک بھی آنسو نہیں تھا۔ ان کے آنسو ان کے دل میں گررہے تھے۔ ایسے میں کسی نے ٹی وی کھول دیا۔ ٹی وی پر سیکورٹی اہلکاروں کو دکھایا جارہا تھا۔ بچوں نے سیکورٹی اہلکاروں کو دیکھا۔ ان کے ذہن میں کوئی منظر جاگ اٹھا۔ وہ دل ہلا دینے والی آواز میں چیخ اٹھے۔۔ بچاؤ۔۔ بچاؤ۔۔ امی، امی!!۔۔ ابو، ابو!! باجی، باجی!!! خدا کے لیے میری امی کو مت مارو، میرے ابو کو مت مارو، باجی باجی پیچھے ہٹ جاؤ وہ تمہیں گو لی مار دینگے۔ چیختے چیختے بچے سکتے میں چلے گئے۔
سکتہ بہت شدید تھا اتنا شدید تھا کہ بس
چیخ گلے میں پھنس گئی اشک نجانے کیا ہوئے
……….
گورنر پنجاب، حقوق انسانی کے داعی، چودھری سرور نے کہا ہے ساہیوال جیسے واقعات صرف مدینے جیسی ریاست میں پیش نہیں آتے بلکہ پوری دنیا میں پیش آتے ہیں۔
یہ عمران خان کا فیض ہے کہ محض پانچ چھ مہینے میں پاکستان اکیلا نہیں پوری دنیا مدینے جیسی ریاست بن گئی ہے۔
……….
کہا جارہا ہے کہ عمران خان کی حکومت سانحہ ساہیوال کے قاتلوں کو بچانے کی کوشش کررہی ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ عمران خان ہی نہیں پوری حکومت ابھی تک صدمے کی حالت میں ہے۔ ایسے میں اچھے برے کا کسے ہوش رہتا ہے۔
جب اپنی عقل کام نہ کررہی ہو تو اپنے بڑوں کا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ ذیشان داعش کا سرغنہ تھا۔ باقی لوگ کولیٹرل ڈیمج میں مارے گئے۔ عراق پر امریکی حملے میں مارے جانے والوں کا تعلق بھی رمز فیلڈ داعش سے جوڑتا تھا۔ بقیہ مارے جانے والوں کو کولیٹرل ڈیمیج قرار دے دیا جاتا تھا۔ قصہ ختم۔ نامعلوم افرد پر غائبانہ مقدمہ چلے گا اور پھر رفتہ رفتہ لوگ بھولتے چلے جائیں گے۔ تحریک انصاف کے انصاف کی جے بولو۔ آپ پر لازم ہے تحریک انصاف کے انصاف کے احترام میں خا موش کھڑے رہیں۔
……….
کہا جاتا ہے پا کستان کے لوگ قانون کی پابندی نہیں کرتے۔ انہیں قانون توڑنے میں مزہ آتا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ آپ ملک میں اسلام کے قوانین نافذ کیجیے پھر دیکھیے لوگ کس طرح قانون پر عمل کرتے ہیں۔ جو مسلمان نماز میں صفیں بناتے ہیں وہ منظم ہونا جانتے ہیں۔ یہ مسلمان زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی ایسے ہی منظم اور قانون کے پابند ہو جائیں گے جب ریاست کے قوانین بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی جانب سے ہوں گے۔ اس اللہ کی جانب سے جس کے بتائے ہوئے طریقوں کا وہ نماز میں احترام کرتے ہیں۔ حج کے موقع پر قدم قدم چوکنے رہتے ہیں کہ کہیں کوئی قانون پامال نہ ہو جائے، روزہ رکھتے ہیں تو ایک سیکنڈ پہلے روزہ نہیں کھولتے چاہے کتنی ہی بھوک پیاس لگی ہو، زکوۃ دے کر خوش ہوتے ہیں اس میں کسی طرح کی ڈنڈی مارنے کا تصور نہیں کرتے۔ وہ قوانین نافذ کیجیے جو اسلام کے مطابق ہیں۔ لوگوں کے عقیدے سے جڑے ہیں پھر دیکھیے لوگ کس طرح قانون پر عمل کرتے ہیں۔