مارچ میں ڈبل مارچ

234

یار لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت غیر مرئی ستونوں پر قائم ہے، خواہ کچھ ہوجائے اسے فی الحال کچھ نہیں ہوگا۔ پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کو نیب نے دھر لیا ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جہانگیر ترین کی طرح خان صاحب کی اے ٹی ایم مشین تھے۔ انہوں نے دل کھول کر تحریک انصاف پر خرچ کیا اور پنجاب میں پارٹی کی انتخابی کامیابی کو یقینی بنایا۔ وہ اپنی خدمات کے عوض پنجاب کی وزارت علیا کے امیدوار تھے لیکن قرعہ فال عثمان بزدار کے نام نکل آیا اور سب دیکھتے رہ گئے۔ وہ ابھی آدابِ حکمرانی سیکھنے کے مرحلے سے گزر رہے تھے کہ سانحہ ساہیوال نے ان کی ہوا اکھیڑ دی ہے اور کہا جارہا ہے کہ خود خان صاحب اپنی تمام تر خواہش کے باوجود انہیں وزیراعلیٰ کے منصب پر برقرار نہ رکھ سکیں گے۔ ان کی جگہ کون لے گا؟ یہ دس ملین ڈالر کا سوال ہے جس کا فی الحال کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ عبدالعلیم خان ان کا نعم البدل ثابت ہوسکتے تھے لیکن نیب نے پہلے ہی ان کا پتا کاٹ دیا ہے اور وزارت بھی اُن کے ہاتھ سے جاتی رہی ہے۔ ایک اہم خبر یہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض بغرض علاج برطانیہ چلے گئے ہیں، حالاں کہ ان کا نام ای سی ایل میں شامل تھا اور ان کے لیے بیرون ملک جانا آسان نہ تھا۔ ملک ریاض کو باہر جانے کی اجازت وزارت داخلہ ہی دے سکتی تھی، یہ وزارت عمران خان نے خود اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے، اس لیے قیاس کیا جارہا ہے کہ خان صاحب ہی نے انہیں باہر جانے کی اجازت دی ہے۔ سپریم کورٹ میں ان کے خلاف کیس چل رہا ہے ان پر الزام ہے کہ انہوں نے بڑے پیمانے پر سرکاری زمینوں پر قبضہ کرکے بحریہ ٹاؤن کے منصوبے کو وسعت دی ہے اور اس کا دائرہ پنجاب سے لے کر سندھ تک پھیلا ہوا ہے۔ پنجاب میں انہوں نے حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران، بیورو کریٹس، سیاستدانوں اور صحافیوں سب پر سرمایہ کاری کی اور انہیں اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ ان کے خلاف زبان کھول سکیں۔ سندھ میں ملک ریاض نے زرداری اینڈ کمپنی کو اپنا ہمنوا بنایا، اس کی ساری فرمائشیں پوری کیں۔ لاہور میں زرداری کو محل نما بلاول ہاؤس بنا کر دیا اور اس کے بدلے میں سندھ میں زمینیں حاصل کیں۔ وہ مٹی کو سونا بنانا جانتے ہیں۔ سندھ کی بنجر زمینیں بھی سونا اُگلنے لگیں۔ ملک ریاض کو پاکستان میں ’’بادشاہ گر‘‘ کی حیثیت حاصل تھی۔ پارلیمنٹ میں کوئی ان کے خلاف لب کشائی نہیں کرسکتا تھا۔ عدالتیں بھی ان پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتی تھیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جہاں بہت سے سوموٹو نوٹس لیے ایک نوٹس ان کے خلاف بھی لے ڈالا، جو اب ان کے خلاف ایک کیس کی شکل اختیار کرگیا ہے اور ان کی دولت کے انبار اس کی زد میں ہیں۔ شاید وہ اپنی ممکنہ گرفتاری کی سُن گُن پا کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ بھی ان کے رابطوں کا کمال ہے کہ ان کے فرار کی خبر بہت لو پروفائل میں شائع ہوئی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ یہ سب تو ٹریلر ہے۔ اصل فلم تو زرداری اینڈ کمپنی کے خلاف سندھ میں چلے گی جہاں صوبے کے تمام مالی وسائل منی لانڈرنگ کی نذر ہورہے تھے اور پورا ایک نیٹ ورک اس کام میں لگا ہوا تھا۔ اس نیٹ ورک کے بیشتر اہلکار پکڑے جاچکے ہیں بس سرغنہ کی گرفتاری باقی ہے جو اسے سیاسی انتقام کا نام دے رہا ہے۔ اپنے اس پروپیگنڈے کو وزن دینے کے لیے اٹھارویں آئینی ترمیم کا سہارا لیا گیا ہے۔ باپ بیٹا دونوں یہ شور مچا رہے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کے لیے ہمارے خلاف جھوٹا کیس بنایا گیا ہے لیکن ہم صوبائی خود مختاری پر کوئی سودا نہیں کریں گے اور اٹھارویں ترمیم پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ صوبائی خود مختاری کا ایشو ایسا ہے کہ اور بھی کئی سیاستدان ان کی آواز سے آواز ملانے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ حالاں کہ اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کی کوئی تحریک اس وقت سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے پاس پارلیمنٹ میں تین چوتھائی تو کیا سادہ اکثریت بھی نہیں ہے وہ تو مانگے تانگے کے ووٹوں سے حکومت کر رہی ہے اور اسے اپنی اتحادی جماعتوں کو راضی رکھنے کے لیے بڑی مشقت جھیلنی پڑ رہی ہے، ایسے میں وہ اٹھارویں ترمیم یعنی صوبائی خود مختاری کے ایشو کو کیسے چھیڑ سکتی ہے۔ اصل میں زرداری اینڈ کمپنی یہ مغالطہ دینے کی کوشش کررہی ہے کہ سندھ میں جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس کے تحت اس کے خلاف قانونی کارروائی صوبائی خود مختاری پر حملہ ہے اور اس طرح اٹھارویں ترمیم کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ حالاں کہ یہ مغالطہ ریاست کی اتھارٹی کے خلاف ایک مکروہ سازش سے کم نہیں ہے، اگر ایک صوبے کا سربراہ اپنی سرکاری حیثیت میں منی لانڈرنگ کے نیٹ ورک کو چلا رہا ہو اور اس کی پارٹی کا قائد فائدہ اٹھانے والوں میں سرفہرست ہو تو کیا قانون اس کے آگے بھیگی بلی بنا رہے گا؟
نیب نے زرداری اینڈ کمپنی پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے تحریک انصاف کی ایک اہم شخصیت کو گرفتار کیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کی مزید اہم شخصیات بھی گھیرے میں آنے والی ہیں، اس کے بعد جب منی لانڈرنگ مافیا کو پکڑا جائے گا اور اس کے سرغنہ کو جیل یاترا کرنا پڑے گی تو سیاسی انتقام کا پروپیگنڈا خود بخود دم توڑ جائے گا۔ یہ اتنا بڑا اسکینڈل ہے کہ اس کی تفصیلات منظر عام پر آئیں تو بڑے بڑوں کے ہوش اُڑ جائیں گے۔ سیاسی جوتشیوں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ آئندہ ماہ ہوگا یعنی مارچ میں ڈبل مارچ کی تیاری ہے، اس کے بعد اسلام آباد میں یوم پاکستان یعنی 23 مارچ کی پریڈی ہوگی جس میں بعض اہم غیر ملکی شخصیات بھی شرکت کریں گی۔ سیاسی جوتشیوں کے مطابق فی الحال عمران حکومت کو کوئی بیرونی خطرہ نہیں ہے اگر خطرہ ہے تو اسے اندر سے ہے، کہیں اس کی نالائقیاں ہی اسے نہ لے ڈوبیں۔