وہ حمام جہاں سب۔۔۔ 

231

فیض آباد دھرنے پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے۔ عدالت عظمیٰ نے تحریک لبیک کی جانب سے 2017ء میں اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے کے معاملے پر ازخود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو حکم دیا ہے کہ ’’وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ عدالت نے آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں‘‘۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان کا آئین، مسلح افواج کے ارکان کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگر میوں بشمول کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا فرد کی حمایت سے روکتا ہے۔ حکومت پاکستان وزارت دفاع اور افواج کے متعلقہ سربراہان کے ذریعے ان افراد کے خلاف کاروائی کرے جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے‘‘۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اصغر خان کیس فیصلے کے بعد مسلح افواج اور آئی ایس آئی کی جانب سے سیاسی مداخلت کا معاملہ رک جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا‘‘۔ عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’’وردی میں ملبوس اہلکاروں نے فیض آباد دھرنے کے شرکا میں رقوم تقسیم کی تھیں اور یہ کوئی اچھا منظر نہیں ہے‘‘۔ عدالت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ’’فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سیاسی معاملات پر رائے زنی کی۔ فیصلے میں ڈی جی آئی ایس پی آرکے اس سیاسی بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا تاریخ ثابت کرے گی کہ سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات غیر جانبدارانہ تھے‘‘۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’مسلح افواج، خفیہ اداروں اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں کام کرنے والے افسران اور اہلکاروں کو یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ وہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کررہے ہیں‘‘۔ فیصلے میں آگے چل کر کہا گیا ہے کہ ’’اصغر خان کیس کے فیصلے کے بعد مسلح افواج اور آئی ایس آئی کی جانب سے سیاسی مداخلت کا معاملہ رک جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا‘‘۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’بعض سیاسی شخصیات نے بھی فیض آباد دھرنے کی حمایت کی۔ ان شخصیات میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور وفاقی وزیر شیخ رشید احمدکے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ضیاکے اعجاز الحق، پیپلز پارٹی کے شیخ حمید اور تحریک انصاف کا علماء ونگ بھی شامل ہے‘‘۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ ’’جب اٹانی جنرل سے ان قوانین اور قواعد وضوابط کے بارے میں پوچھا جس کے مطابق آئی ایس آئی کام کرتی ہے تو اس بارے میں اٹارنی جنرل کی طرف سے ایک بند لفافہ عدالت میں پیش کیا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی استدعا کی گئی کہ آئی ایس آئی کے دائرہ اختیار کو پبلک نہ کیا جائے‘‘۔
عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد کہنے کے لیے کیا باقی رہ گیا ہے۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے افسردگی، نا امیدی اور ناکامی جسم وجاں کا احاطہ کرلیتی ہے۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کی ایک خوبصورت غزل سے چند اشعار ملاحظہ فرمالیجیے۔
سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی
اس موسم گل سے ہی بہکے نہیں دیوانے
ساتھ ابر بہاراں کے وہ زلف بھی لہرائی
چرکے وہ دیے دل کو محرومی قسمت نے
اب ہجر بھی تنہائی اور وصل بھی تنہائی
اس ملک کو کس طرح چلایا جارہا ہے۔ کس طرح گھر کے چراغ گھر کو آگ لگا رہے ہیں۔ فیصلے میں کھل کر بیان کردیا گیا ہے۔ کتنی ہی بار چمن مہکا، بہار آئی پھر بھی تنہائی اور بربادی ہمارا مقدر ہے۔ کیوں؟ یہ فیصلہ اس سمت اشارہ ہے۔ درد کی ٹیسیں کہاں سے ریلیز کی جاتی ہیں۔ آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی، ہجر بھی تنہائی اور وصل بھی تنہائی۔ اس فیصلے کو ایک بار پھر پڑھ لیجیے آپ کو سمجھ میں آجائے گا کیوں۔ اس زلف کے لہراتے ہی، اشارے ملتے ہی، کس طرح کردار متحرک ہوتے ہیں، ادارے بساط بچھاتے ہیں، مہرے آگے پیچھے کیے جاتے ہیں، کس طرح ایک جمی جمائی حکومت کو گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ فیصلے میں بین السطور نہیں سب کچھ کھل کر بیان کیا گیا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کس کے اشارے پر قانون اور آئین کو دیدہ دلیری سے پا مال کرتی رہی، ایک شہر کو یرغمال بنایا، حکومت کی سانسیں اکھاڑدیں، پورے پاکستان کو اضطراب میں مبتلا کردیا، تحریک لبیک کو یہ طاقت، یہ قوت کہاں سے فراہم کی جارہی تھی؟ فیصلے میں سب کچھ آشکار کردیا گیا ہے۔ وہ جنہیں کہیں اور ہونا چاہیے تھا انہیں سوئے شہر کس نے ہنکایا، کس نے ان کی رکھوالی کی کس نے انہیں دانہ پانی مہیا کیا اس فیصلے کے سامنے آنے کے بعد اب یہ کوئی راز نہیں ہے۔ موسم گل جسے پا کستان میں جمہوریت کہا جاتا ہے اس موسم گل کے دیوانے سیا ست دانوں نے خزاں کے نمائندوں کو کس طرح کمک فراہم کی۔ شیخ رشید جیسے جمہوریت کے مرد مجاہد، مرد مومن جنرل ضیاالحق کے صاحبزادے اعجاز الحق، پیپلز پارٹی کے ایک نمائندے اور تحریک انصاف نے اپنے اوپر کس طرح کالک ملی۔ فیصلہ دیکھیے دل پر چرکے ہی چرکے لگتے چلے جاتے ہیں۔
انسانی زخموں سے لطف اٹھانے، ڈیم کے لیے چندے جمع کرنے، دوسے زائد بچوں پر قدغن لگانے، عدل کے سوا ہر کام میں دلچسپی لینے والے چیف جسٹس ثاقب نثار! منصب عدل کی توقیر سے ناآشنا اس شخص کے ذکر سے کنارہ ہی بہتر ہے لیکن فیض آباد دھرنے کے ذکر نے پھر اس کی یاد تازہ کردی۔ خادم حسین رضوی نے اسے بیچ چوراہے میں گالیاں دیں، اس کی تذلیل میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی لیکن اپنی عدالت میں پیش ہونے والے ہر فرد کو اوئے کہہ کر مخاطب کرنے والا، بحرانوں کو جنم دینے والا، اپنے سامنے پیش ہونے والے سیا ست دانوں، عوامی نمائندوں، معزز پیشوں سے وابستہ افراد کی ایسی تیسی کرکے تسکین پانے والا یہ شخص بزدلی سے ایک کونے میں دبکا بیٹھا رہا۔ قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں لیکن یہ معززچیف جسٹس صاحب بت بنے بیٹھے رہے۔
تحریک لبیک وہ جماعت جس کا متنازع ایجنڈا قومی سلامتی اور ریاست کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے اور انتہا پسند نظریات کو تشدد کے ذریعے لوگوں پر تھوپنا تھا الیکشن کمیشن نے کس طرح ایسی جماعت کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی۔ تحریک لبیک کو بطور ایک سیاسی جماعت ایک ایسے شخص کی گارنٹی پر رجسٹرڈ کیا گیا جس کی قومیت کے بارے میں الیکشن کمیشن خود بھی ابہام کا شکار تھا۔ اس الیکشن کمیشن کے تحت 2018 کے الیکشن کو جو لوگ بہترین قرار دیتے ہیں انہیں شرم آنی چاہیے۔ فیصلے میں ان جماعتوں کا بھی ذکر ہے جو فارن فنڈنگ سے چلتی ہیں۔ تحریک انصاف بھی فارن فنڈنگ میں ملوث رہی ہے لیکن کسی کو یاد نہیں۔
کس طرح پاکستان میں ہنگامے برپا کیے جاتے ہیں، بحران تخلیق کیے جاتے ہیں، منتخب حکو مت کے خلاف واردات کرکے اسے گھر بھیج دیا جاتا ہے اس فیصلے کے بعد اب کچھ بھی پردے کے پیچھے نہیں رہا۔ وہ کون سے ادارے ہیں جو پاکستان کی تاریخ، پاکستان کے نظام اور پاکستان میں منتخب حکومتوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، اب کوئی راز یا متنازع بات نہیں رہی۔ کہاں سے اشارے ہوتے ہیں کہ کسی کے لیے حالات ساز گار ہوتے چلے جاتے ہیں، تمام ادارے بشمول عدلیہ اس کی پشت پر آکھڑی ہوتی ہے اور کہاں سے سرخ بتی جلتی ہے کہ کسی کے خلاف بھی انتقام کی نہ ٹھنڈی پڑنے والی آگ بھڑک اٹھتی ہے، جمے جمائے نظام کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ کیا مستقبل میں اس صورتحال سے، اداروں کے اس کردار سے پناہ کی کوئی صورت ہے؟