سعودی ولی عہد کا دورہ، کیا اسلامی ممالک میں قربتیں بڑھ رہی ہیں؟

157

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) سعودی ولی عہد محمد بن سلمان 2 روزہ دورے پر 16 فروری کو پاکستان پہنچ رہے ہیں اور ان کے ہمراہ شاہی خاندان کے اہم افراد کے ساتھ ساتھ وزرا اور کاروباری شخصیات سمیت ایک بڑا وفد بھی پاکستان آئے گا جس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سیکورٹی پلان کو حتمی شکل دے دی ہے۔سعودی شاہی مہمان اور ہر لحاظ سے بڑی شخصیات کی آمد ملک کے مستقبل کے حوالے سے اہم اور تاریخی ہوگی۔ حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی سرمایہ کاری سے
پاکستان کے خوشگوار ایام کی شروعات ہوجائے گی۔اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک ریکارڈ سرمایہ کاری پیکج تیار کیا گیا ہے جس سے نہ صرف مالی مشکلات سے دوچار پاکستان کو مدد ملے گی بلکہ ساتھ ساتھ ” ارضی سیاست کو درپیش چیلنجز بھی حل ہوں گے۔واضح رہے کہ متوقع سرمایہ کاری کے تحت بحیرہ عرب میں واقع اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل گوادر پورٹ پر 10ارب ڈالر کی آئل ریفائنری اور آئل کمپلیکس کی تعمیر ہے بھی شامل ہے یہ جگہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا بھی مرکزی مقام ہے۔ قوی امکان ہے کہ پاکستان کو شاہی مہمان کی میزبانی کے دوران سعودی عرب سے 10 ارب ڈالر کی امداد بھی مل سکتی ہے۔اگر ایسا ہوگیا تو یہ بات ملک کے ساتھ عمران خان کی حکومت کے لیے غیر معمولی خوشی کا باعث ہوگی۔ یادرہے کہ عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد گزشتہ سال سعودی عرب کے دورے کے دوران ان کا استقبال بھی سعودیہ کی تاریخ میں کسی پاکستانی وزیراعظم کا پہلا شاندار استقبال تھا۔ یہ عمران خان کا وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد پہلا غیرملکی دورہ تھا۔ گمان ہے کہ عمران خان نے منت مانگی ہوگی کہ اگر وہ وزیراعظم منتخب ہوگئے تو سب سے پہلے شکرانے کے طور پر عمرہ ادا کریں گے۔اس دورے کے دوران انہوں نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ ملک میں سعودی ولی عہد کی آمد اور 2 روز تک قیام کے نتیجے میں ملک کی سیاسی فضاء4 یکسر بدلنے کے ساتھ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے ہزیمت اٹھانے کے مساوی ہوگی کیونکہ مختصر مدت حکومت کے دوران اس طرح کی کامیابی مذکورہ جماعتوں کے حصے میں نہیں آسکی حالانکہ دو جماعتیں تین تین مرتبہ حکومت میں رہیں۔ سعودی ولی عہد کا دورہ اس بات کا اشارہ بھی دے رہا ہے کہ اسلامی ممالک میں قربتیں بڑھ رہے ہیں جو دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے خوش آئند ہے۔ خیال ہے کہ سعودی عرب کے سربراہ کے دورے اور اس کے ثمرات کو تادیر پاکستانی یاد رکھیں گے۔