ثقافت اور دہشت گردی اپنی اصل میں دو مختلف تصورات ہیں۔ جہاں ثقافت ہوتی ہے وہاں دہشت گردی نہیں ہوتی اور جہاں دہشت گردی ہوتی ہے وہاں ثقافت نہیں ہوتی۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں اور ٹیلی ویژن چینلوں نے ثقافت اور دہشت گردی کو جڑواں بہنیں بنا دیا ہے۔
دہشت گردی، تباہی، بربادی اور سماج دشمنی سے پہچانی جاتی ہے۔ پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلوں کے نام نہاد ’’مارننگ شوز‘‘ کو دیکھا جائے تو وہ بھی معاشرے میں اقدار و روایات کی تباہی و بربادی کا سامان کرکے خود کو سماج دشمن ثابت کررہے ہیں۔ روزنامہ ڈان لبرل اور سیکولر نظریات کا حامل اخبار ہے اور خواتین کی ’’آزادی‘‘ اسے بہت عزیز ہے مگر ہمارے ٹیلی ویژن چینلوں کے ’’مارننگ شوز‘‘ ایسے ہیں کہ روزنامہ ڈان نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں مارننگ شوز کو ’’Morning Sickness‘‘ اور ’’Morning Show Circus‘‘ قرار دیا ہے۔ روزنامہ ڈان کی یہ رپورٹ کئی اعتبار سے اہم ہے۔
ڈان کی رپورٹ کے مطابق مارننگ شوز میں شادیاں ہوتی ہیں، دلہنیں ہوتی ہیں، ان کے غرارے اور شرارے ہوتے ہیں، میک اَپ ہوتا ہے، مقابلہ حسن ہوتا ہے، گیم شوز ہوتے ہیں، لڑکیوں کو حسین بننے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں، مارننگ شوز میں رقص ہوتا ہے، گیت ہوتے ہیں، شور شرابا ہوتا ہے، سانولی لڑکیوں کو ’’حبشن‘‘ اور ’’Negroes‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، مارننگ شوز میں کرائے کے دلہا اور دلہنیں ہوتی ہیں۔ (ڈان کراچی، 27جنوری 2019)
جیو کے مارنگ شو کی سابق میزبان شائستہ لودھی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
’’میں نے مارننگ شو پر شادی کرانے کے رجحان کا آغاز کیا، میں ہوں مجرم، میں اپنے شو پر شادی کی لمبی لمبی تقریبات دکھا کر سوچتی تھی کہ یہ میں کیا کررہی ہوں، میں نے پاکستان کے تمام بڑے چینلوں پر مارننگ شوز کیے ہیں مگر ہر جگہ مجھ پر Rating حاصل کرنے کے لیے دباؤ ہوتا تھا۔ ایک مارننگ شو میں ایسی عورت کو بلایا گیا جس کے شادی کے بارہ سال بعد بھی کوئی بچہ نہ تھا، اسے ’’بیچاری‘‘ کہہ کر پکارا گیا، میں یہ سب کچھ اس لیے کہہ رہی ہوں کہ اب میں خود کوئی مارننگ شو نہیں کرتی‘‘۔
اب آپ اے آر وائی کے مارننگ شو کی میزبان ندا یاسر کی گفتگو بھی ملاحظہ فرمائیے، کہتی ہیں۔
’’بلاشبہ ہم اپنے شو پر Live Weddings دکھاتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی شادیاں ناظرین میں بہت مقبول ہیں، اگر ہم اپنے شو میں علمی مواد یا Intellectual Content پیش کریں تو اس سے ہمیں Ratings حاصل نہیں ہوسکتیں۔ پہلے ہم ہفتے میں ایک شادی دکھایا کرتے تھے مگر پھر ایک اور چینل پر شائستہ لودھی نے تواتر کے ساتھ شادیاں دکھانی شروع کیں۔ چناں چہ میرے شو کی Rating گرنے لگے، اب میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ میں بھی شادیوں کا سلسلہ شروع کروں‘‘۔
اس سلسلے میں اے آر وائی ڈیجیٹل کے سی ای او جرجیس سیجا (Jerjess Seja) کی گفتگو بھی ملاحظہ کیجیے۔ انہوں نے ڈان سے بات کرتے ہوئے فرمایا۔
’’آخر ہم اپنے شوز اس موضوع (یعنی شادی) پر کیوں نہ کریں جسے پورا ملک Enjoy کرتا ہے، جو لوگ ٹی وی پر شادیاں اور گیم شوز اور مقابلہ حسن نہیں دیکھنا چاہتے وہ اپنا چینل تبدیل کرسکتے ہیں‘‘۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈان نے لکھا ہے کہ مگر ناظرین چینل تبدیل کرکے جس دوسرے چینل پر جائیں گے وہاں بھی یہی سب کچھ ہورہا ہوگا۔
ڈان کی رپورٹ میں معروف ڈراما نگار اور مصّور انور مقصود کا تجزیہ بھی موجود ہے۔ انہوں نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ ٹیلی ویژن تفریح بھی مہیا کرتا تھا اور ناظرین کی ذہنی سطح بھی بلند کرتا تھا مگر اب ٹیلی ویژن کا ادارہ صرف معاشرے کی ذہنی و علمی سطح کو گرا رہا ہے۔ انہوں نے سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا Rating ہی سب کچھ ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر Rating ہی سب کچھ ہے تو ہمارے چینلوں کو چاہیے کہ وہ عریانی و فحاشی دکھائیں اس سے Rating بڑھے گی اور پوری قوم عریانی و فحاشی کو دیکھے گی، مگر کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟ (ڈان، 27 جنوری 2019ء)
مارننگ شوز کے حوالے سے صورتِ حال اتنی مخدوش ہے کہ پیمرا تک نے اس کا نوٹس لیا ہے اور چینلوں کو ’’مشورہ‘‘ دیا ہے کہ وہ اپنے شوز میں معقولیت پر مبنی مواد پیش کریں۔
رشید احمد صدیقی نے کہیں لکھا ہے کہ جس انسان کا تصورِ عورت پست ہوتا ہے اس کا تصورِ خدا بھی پست ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے چینلز، ان کے مالکان، چینلوں کے میزبانوں اور خود پاکستان کے حکمرانوں کا تصورِ عورت بہت پست ہے۔ چناں چہ ان کا تصورِ خدا بھی یقیناًپست ہے۔ ہماری تہذیب میں عورت خدیجہؓ ہے، عائشہؓ ہے، فاطمہؓ ہے، ماں ہے، بیوی ہے، بیٹی ہے، بہن ہے۔ ہمارے زمانے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے، استاد ہے، شاعر ہے، ادیب ہے، صحافی ہے۔ مگر ہمارے چینلوں پر عورت کی ان تصویروں میں سے کوئی تصویر بھی موجود نہیں۔ ہمارے چینلوں کے مارننگ شوز میں عورت صرف ایک ’’خوبصورت‘‘ شے ہے۔ خوبصورتی کو جنس کے تصور کے ساتھ ملا لیا جائے تو ہمارے چینلوں کے لیے عورت صرف جنس کی علامت ہے، صرف Sex Synbol ہے۔ یہ ہمارے مذہب، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اور ہماری اقدار ہی کی نہیں خود عورت کی بھی تذلیل ہے۔ یہی ثقافتی دہشت گردی ہے، دہشت گرد انسانوں کو مارتے ہیں، ہمارے چینلز ہمارے مذہب، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ، ہماری اقدار اور ہمارے ’’تصورِ عورت‘‘ کو مار رہے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ دہشت گرد انسانوں کو مار کر دہشت گرد کہلاتے ہیں اور انہیں ملک کے قانون کے تحت پھانسی دی جاتی ہے، ہمارے چینلز ہمارے مذہب، ہماری اقدار، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اور ہمارے تصورِ عورت کو مار رہے ہیں۔ مگر انہیں کوئی دہشت گرد نہیں کہتا، انہیں کوئی پھانسی پر چڑھانے کی دھمکی نہیں دیتا۔
ہمارے چینلوں کے لیے Rating سب کچھ ہے، Rating کا مطلب یہ ہے کہ جس چینل کے پاس سب سے زیادہ Rating ہے اس کے پاس سب سے زیادہ اشتہارات ہیں، اس کے پاس سب سے زیادہ مال ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے چینلوں کا مقصد قوم کی خدمت نہیں بلکہ قوم کی تباہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ قوم کی تباہی سے چینلز مال کماتے ہیں، اس سلسلے میں اے آر وائی کے سی ای او کا تبصرہ عجیب ہے، انہوں نے فرمایا ہے کہ جس کو مارننگ شوز پسند نہیں وہ چینل بدل لے۔ اس پر ڈان کی مضمون نگار ملیحہ رحمن نے کہا کہ ناظر ایک چینل بدل کر دوسرے چینل پر جائے گا تو وہاں بھی وہی کچھ ہورہا ہوگا جو پہلے چینل پر ہو رہا تھا۔ مگر یہ ٹھیک اور پورا جواب نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک فیکٹری مضر صحت چیز بناتی ہے تو اس پر جرمانہ کیا جاتا ہے، یہاں تک اسے بند کردیا جاتا ہے۔ چناں چہ کیوں نہ پاکستان کے تمام چینلوں کو ملک کے اقداری نظام کے خلاف سازش کے الزام میں بند کردیا جائے؟ بلاشبہ عوام میں بہت سی منفی چیزیں پسند کی جاتی ہیں مگر عوام کی پسند کوئی اخلاقی علمی معیار یا قومی معیار نہیں۔ مثلاً پاکستان میں اس وقت 15 لاکھ لوگ ہیروئن پیتے ہیں، یہ ہیروئن انہیں کوئی نہ کوئی فراہم کرتا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ریاست ہیروئن فراہم کرنے والے کو اسمگلر کیوں کہتی ہے اور اسے کیوں پکڑتی اور کیوں جیل میں ڈالتی ہے؟ آخر 15 لاکھ لوگ ہیروئن کو ’’پسند‘‘ کرتے ہیں، اسمگلروں کو ’’رعایت‘‘ اور ’’سہولت‘‘ دی جائے تو ملک میں ہیروئن پینے والوں کی تعداد ’’15 کروڑ‘‘ بھی ہوسکتی ہے۔ جس طرح ہیروئن ایک نشہ ہے اسی طرح ہمارے چینلز کے مارننگ شوز بھی ایک ’’تفریحی نشے‘‘ کا کردار ادا کررہے ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ریاست کو اس نشے سے کوئی سروکار نہیں، بجائے اس کے کہ پیمرا مارننگ شوز بند کرتا اس نے چینلوں کو ’’مشورہ‘‘ دیا ہے کہ وہ اپنے شوز کو بہتر بنائیں، مگر سوال یہ ہے کہ جب Rating عورت کی تذلیل سے میسر آتی ہو تو چینلز پیمرا کا مشورہ کیوں قبول کرنے لگے۔ آخر ریاست پاکستان دہشت گردوں کو صرف ’’مشورہ‘‘ دینے پر کیوں اکتفا نہیں کرتی؟ آخر ’’مشہور دہشت گردوں‘‘ اور ثقافتی دہشت گردوں میں کیا فرق ہے؟۔
ایک وقت تھا کہ ہمارے ہیروز، عالم، دانش ور، شاعر، ادیب اور مدبر سیاست دان ہوتے تھے مگر ذرائع ابلاغ نے ہمارے معاشرے کے ہیروز بدل ڈالے۔ انہوں نے اداکاروں، گلوکاروں، ماڈلز اور کھلاڑیوں کو قوم کا ہیرو بنادیا۔ اس تناظر میں اندیشہ ہے کہ ہمارے چینلز عورت کا جو تصور پیش کررہے ہیں رفتہ رفتہ وہی معاشرے کا تصور عورت بن جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لاکھوں عورتیں مردوں کی نظر سے گر جائیں گی اور ان کا کوئی پُرسان حال نہ ہوگا۔ ہمارا دین کہتا ہے کہ شادی کرتے ہوئے عورت کی دین داری دیکھو، اس کا خاندان دیکھو، اس کا کردار دیکھو اور اس کی خوبصورتی دیکھو، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کہہ رہے ہیں کہ عورت کی صرف ایک چیز اہم ہے اس کی خوبصورتی۔ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ ہماری شادیاں پہلے ہی بہت چمکیلی، بہت مہنگی اور بہت بے روح ہوچکی ہیں مگر ہمارے چینلز شادی کا جو تصور پیش کررہے ہیں اس کے نتیجے میں ہماری شادیاں بھڑکیلی، مہنگی اور مزید بے روح ہوجائیں گی۔ ہمارے معاشرے کی معاشی حالت یہ ہے کہ ملک کی آدھی آبادی خطِ غربت سے نیچے کھڑی ہے، ایسے معاشرے میں ’’مہنگی شادی‘‘ کے تصور کو عام کرنا بجائے خود معاشرے کے خلاف ایک گھناؤنی سازش ہے، ایک معاشی دہشت گردی ہے، معاشرے میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے لیے ’’مہنگی شادی‘‘ نہیں ’’صرف شادی‘‘ بھی ایک خواب ہے۔ پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلز جس طرح کی شادیوں کو فروغ دے رہے ہیں وہ لاکھوں لوگوں کے لیے ’’شادی‘‘ کو ’’خواب‘‘ بھی نہیں رہنے دیں گے۔ اس صورتِ حال سے معاشرے میں طبقاتی نفرت بھی عام ہوگی۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ اگر تم پھل لاؤ تو ان میں سے کچھ اپنے پڑوسی کو بھی دو، یہ نہیں کرسکتے تو پھل کھا کر ان کے چھلکے باہر نہ پھینکو۔ اس لیے کہ کہیں اس عمل سے تمہارے پڑوسی میں احساس محرومی نہ پیدا ہو۔ مگر ہمارے چینلز اپنے مارننگ شوز کے ذریعے محرومی کا سونامی تخلیق کررہے ہیں۔