دفعہ 35اے پر فیصلہ ایک بار پھر مؤخر

222

بھارتی عدالت عظمیٰ نے اپنے آئین میں کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی دفعہ 35A پر حتمی سماعت اور فیصلہ ایک بار پھر ملتوی کر دیا۔ اس بار مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے بھارتی عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ یہ معاملہ بہت حساس ہے اور اس وقت کشمیر میں صدر راج نافذ ہونے کی وجہ سے منتخب حکومت نہیں۔ اور بہتر یہی ہے کہ اس معاملے کو موخر کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر حکومت کی اس استدعا کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ ایک بار پھر آنے والے وقت پر ٹال دیا۔ اس سے پہلے مختلف حیلوں بہانوں سے سماعت اور فیصلہ موخر کیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ برس اگست میں عدالت عظمیٰ کے ججوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ بینچ تین رکنی تھا مگر ایک رکن کی غیر حاضری کی وجہ سے فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا۔ یوں عدالت عظمیٰ نے مقررہ دن فیصلہ سنانے سے گریز کیا، جس دن فیصلہ سنانا تھا اس وقت مقبوضہ کشمیر میں زودار ہڑتال چل رہی تھی۔ مشترکہ مزاحمتی فورم کی اپیل پر ہونے والی دو روزہ ہڑتال نے کاروبار حیات معطل کر کے رکھ دیا تھا اور عوام چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں احتجاج کر رہے تھے۔ ’’وی دی سٹیزن‘‘ (ہم شہری) نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے بھارتی عدالت عظمیٰ میں یہ رٹ دائر کر رکھی ہے۔ اس بار بھی مشترکہ مزاحمتی فورم کے قائدین سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک نے دوروزہ عام ہڑتال کی اپیل کی تھی۔ ہڑتال اور احتجاج کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں کہ فیصلہ موخر کرنے کی خبر آگئی اور یوں احتجاج کی کال واپس لے لی گئی۔ ہڑتال کی کال واپس لیتے ہوئے بھی میرواعظ عمر فاروق نے واضح کیا کہ کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے اور شناخت بدلنے کی ہر کوشش کی مزاحمت کی جائے گی۔ کشمیر کے کاروباری طبقے کی تنظیم کشمیر اکنامک لائنس کے صدر یاسین خان نے بھی ایک روز قبل یہ دھمکی دی تھی کہ کشمیر کی شناخت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کوشش صرف کشمیر ہی نہیں جنوبی ایشیا میں ایک نئی کشیدگی کا باعث بن جائے گی اور اس کے پورے خطے پر تباہ کن اثرات ہوں گے۔
بھارتی آئین کی دفعہ 35A مقبوضہ کشمیر کو خصوصی شناخت دیتی ہے جس کے تحت کوئی بھی غیر کشمیری باشندہ ریاست جموں وکشمیر میں نہ تو جائداد خرید سکتا ہے اور نہ ووٹ کا استعمال کر سکتا ہے۔ اس دفعہ کے تحت بھارت کا شہری کشمیر میں ملازمت کا حق بھی نہیں رکھتا۔ یہ دفعہ کشمیر کی الگ شناخت کے حوالے سے بھارت کی قیادت بالخصوص پنڈت جواہر لعل نہرو کے وعدوں کی آخری آخری نشانیوں میں شامل ہے۔ غیر کشمیری باشندوں کے کشمیر میں زمینیں خریدنے اور ملازمت حاصل کرنے کا قانون جسے عرف عام میں اسٹیٹ سبجیکٹ یعنی پشتنی باشندہ ریاست جموں وکشمیر کا تصدیق نامہ کہا جاتا ہے مہاراجا ہری سنگھ نے نافذ کیا تھا۔ جس کا بنیادی مقصد پنجاب کے ہندوؤں کا اپنی زیر خرید ریاست سے انخلا روکنا اور اس کا داخلی تشخص برقرار رکھنا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب کشمیر تقسیم ہوا تو بھارت اور پاکستان دونوں نے اس قانون کو من وعن تسلیم کرکے نافذ رکھا۔ مغربی پاکستان سے جانے والے لاکھوں ہندو شرنارتھی جموں کے کیمپوں میں مدتوں سے اس قانون کے خاتمے کی امید پر مقیم رہے۔ وہ کشمیر کی شہریت اور وہاں باشندہ درجہ اول کا حق مانگتے رہے مگر کسی حکومت نے اسٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کے ساتھ چھیڑ کر اس مطالبے کو پزیرائی بخشنے کی جرات نہ کی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے ایک الگ ریاست یا بھارت کے وجود میں ایک نیم خود مختار ریاست کے وعدوں اور خوابو ں کے بدلے ہی شیخ محمد عبداللہ کو مہاراجا ہری سنگھ کے الحاق کی توثیق پر آمادہ کیا تھا مگر مطلب براری کے بعد نہ صرف یہ کہ شیخ عبداللہ کو برطرف کرکے جیل میں ٹھونس دیا گیا بلکہ ریاست کی خودمختاری کا گلہ بھی گھونٹا جاتا رہا۔ یہاں تک اب ان وعدوں کی بکھری ہوئی کرچیوں کو بھی برداشت نہیں کیا جا رہا۔
بھارت کشمیر میں اس وقت پوری طرح فلسطین ماڈل اپنائے ہوئے ہے۔ اس کام میں بھارت کو اسرائیل کے تجربے ہی کی نہیں ٹیکنالوجی کی بھی بھرپور مدد حاصل ہے اور اس کا انکشاف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی کشمیر کے حوالے سے ایک حالیہ رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔ بھارت کے ان عزائم اور منصوبوں کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ یہی دفعہ ہے۔ اب بھارت اس دفعہ کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرکے مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا چاہتا ہے۔ اس قانون کے خاتمے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر بھارتی سرمایہ دار وادی کی طرف نقل مکانی کریں گے اونے پونے داموں زمینیں خریدی جائیں گی اور مغربی پاکستان سے جانے والے لاکھوں ہندو پناہ گزین پہلے ہی سے جموں کے علاقوں میں شہریت کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پنڈتوں کے لیے الگ بستیان بسانے کے منصوبے بھی کاغذوں میں تیار ہیں، امرناتھ یاتریوں کے لیے وسیع وعریض رہائشی منصوبے اور انہیں اس کے لیے الگ سے انتظامیہ کا قیام اور ان کے لیے مکانیت کی سہولت کی فراہمی وادی کے مسلمان اکثریتی کردار کے اوپر لٹکتی ہوئی تلوار ہے اور یوں کشمیر میں ایک ’’اسرائیل‘‘ کے خدوخال اُبھرنا شروع ہوجائیں گے۔ کشمیری مسلمان ہمیشہ سے اس خطرے کی بو محسوس کرتے رہے ہیں مگر نریندر مودی کے دور حکومت میں یہ خطرہ بہت عیاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مودی کے آتے ہی کشمیر میں مزاحمت کے ایک نئے اور نہ ختم ہونے والے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ وادی کے مسلمان فلسطین ماڈل کے خلاف ردعمل میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ طاقت اور حیلہ جوئی سے کشمیریوں کو رام نہ کیا جا سکا اور اب آخری چارہ کار آبادی کے تناسب کی تبدیلی ہے۔ اس کے لیے بھارت کے آئینی اداروں کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی اس منظم کوشش کے خلاف حکومت پاکستان کو بھرپور سفارتی مہم شروع کرنی چاہیے۔ تمام سفارت خانوں کو متحرک کرنا چاہیے کیوں کہ آباد ی کے تناسب کا یہ سلسلہ کامیاب ہو گیا تو یہ خطے میں مسلمانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوگا اور یوں مسلمانوں کو اپنے لیے کوئی نیا مقام اور ٹھکانہ تلاش کرنا ہوگا۔ بی جے پی کی حکومت کے قیام کے بعد کشمیر میں بار بار مزاحمتی تحریکوں کے پیچھے وادی کشمیر کے مسلمانوں میں اقلیت بنائے جانے کا خوف بھی موجود ہے۔