شہباز شریف بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹ کمیٹی حکومت کے لیے ناقابل برداشت ہو تے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سمیت وفاقی وزرا کی اکثریت انہیں اس عہدے پر دیکھنے کے لیے کسی صورت تیار نہیں تھی لیکن جن قوتوں نے عمران خان کا سلیکشن کیا تھا اسی جانب سے شہباز شریف کے حق میں اشارہ آیا تو حکومت کے لیے مزاحمت ممکن نہیں رہی۔ اس مفاہمت کے چند ماہ بعد ہی حکومت ایک بار پھر شہباز شریف کی نامزدگی کے درپے ہے۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے شہباز شریف پر سب سے بڑا اعتراض نیب مقدمات ہیں۔ نیب کے مقدمات ہی اگر کسی منصب پر فائز ہونے یا نہ ہونے کا معیار ہیں تو پھر عمران خان کا بھی وزیراعظم کے منصب پر رہنے کا جواز نہیں بنتا جو سرکاری ہیلی کاپٹر کے غیر قانونی استعمال کے مقدمے میں نیب کو مطلوب ہیں۔ شیخ رشید نے شہباز شریف کی نامزدگی کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا لیکن وہ اس پر عمل نہیں کرسکے۔ شیخ رشید کی شہباز شریف کے معاملے میں تلملاہٹ دیدنی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی تائید کے باوجود وہ مجلس قائمہ کے رکن نہ بن سکے۔ حکومت شہباز شریف پر دباؤ میں اضافہ کرتی جارہی ہے لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ شہباز شریف اس دباؤ کو خاطر میں لائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ شہباز شریف کے معاملے میں پہلے سرنڈر کرنے کے باوجود اب حکومت اس قدر مشتعل کیوں ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ شہباز شریف اس سسٹم کا عمران خان کی حکومت سے بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ چیئرمین پی اے سی کی حیثیت سے ان کی فعالیت حکومت کو ہضم نہیں ہورہی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شہباز شریف ایسے روابط استوار کررہے ہیں جو حکومت کے لیے بوکھلاہٹ اور سخت تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔
فیض آباد دھرنے پر عدالت عظمی کا فیصلہ نواز شریف کے بیانیے کی پرزور تائید ہے۔ نواز شریف کے موقف کی تائید وہاں سے کی جارہی ہے جہاں سے نواز شریف کو گاڈ فادر اور سسلین مافیا کے خطاب ملے تھے۔ انصاف کے ایوانوں سے جاری کیے گئے ان فیصلوں نے کیا پر پیچ زاویے تخلیق کیے ہیں، ان کی بدولت آج ریاست کہاں کھڑی ہے، اداروں کی توقیر کس درجے پر ہے، عوام کا ریاست اور اس کے اداروں پر اعتماد بحال ہوا یا اس میں کمی آئی ہے، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے نواز شریف کی تذلیل میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی بعد از ریٹائر منٹ آج ان کی عزت اور توقیر کا کیا حال ہے۔نیب کی گرفتاریوں،مقد مات اور فیصلوں کو عدل باور کیا جاتا ہے یا ان کی حیثیت سیاسی انجینئرنگ کی ہے؟ کیا اس باب میں کہیں دو رائے موجود ہیں؟۔ تحریک انصاف کے پنجاب اسمبلی کے رکن علیم خان کی گرفتاری کو بھی نیب کے ’’مثالی کردار‘‘ سے تعبیرکیا جارہا ہے۔ نیب کی جانب سے ان پر الزام ہے کہ ان کا طرز زندگی آمدنی کے ذرائع اور اثاثوں سے کہیں سوا ہے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ علیم خان کی دیرینہ خواہش رہی ہے۔ انہوں نے اس خواہش کو کبھی مخفی نہیں رکھا۔ عثمان بزدار کی نااہلی سے ناخوش اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد بھی انہیں حاصل ہے۔ نیب کی جانب سے کلین چٹ ان کی وزارت اعلیٰ کا راستہ صاف کرسکتی ہے۔ نیب کی طرف سے اب تک جو گرفتاریاں کی گئی ہیں ان میں اکثریت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اراکین کی رہی ہے وہ الزام جس کی سعادت اب تک تحریک انصاف کے مخالفین کے حصے میں آتی تھی اس کی پی ٹی آئی تک توسیع سے توازن دکھانا اور یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ نیب عمران خان کی طرفدار نہیں ہے۔ ایل این جی کی خرید کے بارے میں قائم کیے گئے مقدمے میں نیب سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ علیم خان کو ’’علم خان‘‘ بنانے کا مقصد شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری کی پیشگی پیش بندی ہے۔
الیکشن کمیشن میں کئی برس سے تحریک انصاف کے پارٹی فنڈز اور عمران خان کی جانب سے اثاثوں کی غلط تفصیلات جیسے معاملات سماعت کے منتظر ہیں۔ الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق جان بوجھ کر حقائق چھپائے ہیں۔ یاد رہے الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کا معاملہ اکبر ایس احمد لے کر گئے تھے جو پی ٹی آئی کے بانی رہنماؤں میں سے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی یو ایس اے نے انڈیا سمیت غیر ملکیوں سے فنڈز لیے لیکن فنڈز دینے والوں کا کہیں نام نہیں ہے تو کہیں ایڈریس نہیں ہے۔ الزامات درست ہونے کی صورت میں عمران خان بھی مجھے کیوں نکالا کا اگلا عنوان ہوسکتے ہیں لیکن عمران خان عرصے سے الیکشن کمیشن کے روبرو پیش ہونے سے اجتناب کررہے ہیں۔ وہ نظام جو نواز شریف کو بیگم کلثوم کی عیادت کی مہلت دینے کے لیے تیار نہیں تھا عمران خان کے تاخیری حربوں کو بڑی خوش اسلوبی سے برداشت کررہا ہے۔ ان کی مبینہ اولاد کے بارے میں بھی مقدے کو جسں طرح نمٹایا گیا ہے وہ ایک الگ سوال ہے۔ یہ کہنا کہ قانون کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی کے ذاتی اخلاق وکردار کے بارے میں فیصلہ دے ایک نرم اور حیرت انگیز فیصلہ ہے جس کا مقصد عمران خان کو فائدہ پہنچانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ماضی میں کتنے ہی فیصلے ہیں جن کی بنیاد لوگوں کے اخلاق وکردار سے رہی ہے۔ ایک ٹی وی اداکارہ مدت تک شراب کی ایک بوتل رکھنے کی پاداش میں عدالت میں گھسیٹی جاتی رہی ہیں۔ بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ تجاوزات کے زمرے میں آتی ہے لیکن عدالت عظمیٰ نے جرمانہ یا فیس ادا کرکے با ضابطہ بنانے کا حکم دے رکھا ہے۔ جب کہ باقی علاقوں میں تجاوزات کو فوراً گرانے کا حکم ہے۔ بنی گالہ ہی میں ایک بیوہ کا مکان اس جرم میں گرادیا گیا ہے۔ یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ سال اپریل میں بنی گالہ اور سیکٹر 11-E میں تعمیرات کو مکمل طور پر غیر قانونی قرار دے کر ان کی ریگولرائزیشن کی شدید مخالفت کی تھی۔ بنی گالہ کو بچانے کے لیے تحریک انصاف نے حکومت میں آتے ہی ایک کام یہ کیا کہ سی ڈی اے کو وزارت کیڈ سے الگ کرکے اسے وزارت داخلہ کے ماتحت کردیا گیا جس کا قلمدان خود عمران خان کے پاس ہے۔ بنی گالہ کے ساتھ ہی ساتھ شاہراہ دستور پر ٹاور نمبر ایک کی ریگولرائزیشن کے احکامات بھی ہمارے نظام عدل کا شاہکار ہیں۔ یہ عمارت بھی بنی گالہ کی طرح اسلام آباد ماسٹر پلان کے خلاف تعمیر کی گئی ہے۔ لیکن چونکہ اس میں حکومتی عہدیداروں کے قیمتی اپارٹمنٹ موجود ہیں ان کی طرف بھی کسی کو دیکھنے کی اجازت نہیں۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان کی دبئی جائداد کے انکشاف پر عدالت عظمیٰ کا ازخود نوٹس انصاف پر مبنی تھا لیکن علیمہ خان کے ساتھ بھی رعایت کا وہی سلوک کیا گیا جو عمران خان کے حوالے سے ہماری عدلیہ کی روایت بنتا جارہا ہے۔ صرف تین کروڑ جرمانہ کرکے علیمہ خان کا مقدمہ نمٹا دیا گیا نہ کوئی منی ٹریل نہ جے آئی ٹی نہ کیس، نہ میڈیا ٹرائل اور نہ کسی ڈکشنری سے مدد۔ عمران خان پر ازالہ حیثیت عرفی کے بھی کئی مقدمات عدالتوں میں موجود ہیں لیکن کوئی جج ان کی سماعت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عمران خان ان مقدمات کے سلسلے میں نہ تو کسی عدالت میں پیش ہوتے ہیں نہ بیان صفائی داخل کرتے ہیں۔ ایسے مقدمات کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر اندر ہونا چاہیے لیکن اس باب میں بھی عمران خان کو استثیٰ حاصل ہے۔
مجرم ہو بارسوخ تو انصاف کچھ نہیں
کس نے یہ درج کردیا ایوان عدل پر
قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ ہمارا نظام قانون اور عدالتی فیصلے عدل کی راہیں روشن کرنے کے بجائے انہیں تاریک سے تاریک تر کرتے جارہے ہیں۔ ان فیصلوں نے کہاں کہاں اور کب کب ریاست کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارا ہے سب کے سامنے ہے۔