ھُمَزَۃ لُمَزَۃ

330

 

 

ان دنوں مِن حَیثُ القوم ہم ایک دوسرے کی قبریں کھودنے، چیتھڑے اڑانے، طعنہ زنی، عیب جوئی اور تذلیل وتحقیر میں مصروف رہتے ہیں اور اس میں ہمیں بڑا لطف آتا ہے، جب کہ قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں ان عادات واقدار کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(1) ’’ہلاکت ہے ہر اُس شخص کے لیے جو منہ پر طعنے دیتا ہے اور پسِ پشت عیب جوئی کرتا ہے، جس نے مال جمع کیا اور اُسے گِن گِن کر رکھا، وہ گمان کرتا ہے کہ اُس کا مال اُسے حیاتِ جاودانی عطا کرے گا، ہرگز نہیں! وہ ’’حُطَمَۃ‘‘ میں ضرور پھینک دیا جائے گا اور آپ کو کیا معلوم ’’حُطَمَۃ‘‘ کیا ہے، وہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے (جس کے شعلے) سینوں تک بلند ہوں گے، بے شک وہ آگ ان پر ہر طرف سے لمبے لمبے ستونوں میں بند کی ہوئی ہوگی، (الہُمَزہ: 1-9)‘‘۔
تفسیر کبیر میں ہے: ’’ھُمَزَہ‘‘ سے مراد غیبت کرنا اور ’’لُمَزَہ‘‘ سے مراد عیب جوئی کرنا، ابوزید نے کہا: ھُمَزَہ سے مراد ہاتھ یا اشاروں سے اور ’’لُمَزَہ‘‘ سے مراد زبان سے عیب جوئی کرنا، ابوالعالیہ نے کہا: ھُمَزَہ سے مراد سامنے طعن کرنا اور ’’لُمَزَہ‘‘ سے مراد پیٹھ پیچھے غیبت کرنا، ایک معنی یہ بیان کیا ہے کہ ھُمَزَہ سے مراد ظاہراً اور لُمَزَہ سے مراد آنکھ یا ابروکے اشارے سے طعن کرنا، ولید بن مغیرہ ایسے ہی کرتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے نہایت نفیس انداز میں فرمایا: ’’اپنے عیب نہ نکالو اور (ایک دوسرے کو) برے ناموں سے نہ پکارو، (الحجرات: 11)‘‘۔ اس میں نفسیاتی انداز میں بتایا گیا کہ تم جس کے عیب نکالتے ہو، وہ تمہارا ہی بھائی ہے، تمہاری ملّت کا ایک فرد ہے، کوئی غیر تو نہیں ہے، یعنی اس کی توہین کر کے تم اپنی توہین کر رہے ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (1) ’’اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہیں اور نہ تم دوسروں کے پوشیدہ احوال کا سراغ لگاؤ اور نہ تم ایک دوسرے کی غیبت کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس کو ناپسند کرو گے اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے، (الحجرات: 12)‘‘۔ (2) ’’اور (اے مخاطَب!) جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کی ٹوہ میں نہ لگ جاؤ، بے شک کان، آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں (روزِ قیامت) باز پرس ہوگی، (الاسراء: 36)‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کے پوشیدہ احوال کا سراغ لگانے سے منع فرمایا، حدیث پاک میں اسے ’’تجسُّس‘‘ اور ’’تَحَسُّس‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے:
’’رسول اللہ ؐ منبر پر چڑھے اور بلند آواز سے پکارا: اے لوگو! جو اپنی زبان سے ایمان لائے ہو اور (ابھی) ایمان تمہارے دلوں میں جاگزیں نہیں ہوا، مسلمانوں کو ایذا نہ پہنچاؤ، انہیں عار نہ دلاؤ، ان کی پوشیدہ باتوں کے درپے نہ ہوجاؤ، پس بے شک جو اپنے مسلمان بھائی کے پوشیدہ راز کے درپے ہوگا، اللہ تعالیٰ اس کی پردہ دری فرمائے گا اور جس کے عیوب کو اللہ ظاہر کر دے، وہ رسوا ہوجائے گا خواہ وہ کجاوے میں بیٹھا ہو، نافع بیان کرتے ہیں: ایک دن عبداللہ بن عمرکی نظر بیت اللہ پر پڑی تو انہوں نے کہا: (اے بیت اللہ!) تیری عظمت بے پایاں ہے، تیری حرمت عظیم ہے لیکن ایک (بے قصور) مسلمان (کے خونِ ناحق) کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تجھ سے بھی زیادہ ہے، (ترمذی)‘‘۔
(2) ’’رسول اللہ ؐ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس پر خود ظلم کرے اور نہ کسی اور کو اس پر ظلم کرنے دے اور جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں مشغول رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت براری فرماتا ہے اور جس نے کسی مسلمان سے کوئی مصیبت دور کی تو اللہ قیامت کی مصیبتوں میں سے اس کی کوئی مصیبت دور فرمادے گا اور جس نے کسی مسلمان کا پردہ رکھا، اللہ قیامت کے دن اس کا پردہ رکھے گا، (بخاری)‘‘۔
اسلام نے ایک دوسرے کی پردہ دری اور عیب جوئی سے منع کرنے کے ساتھ ساتھ یہ حکم بھی دیا کہ اپنے دین کے دشمنوں کو اپنا رازدار نہیں بنانا چاہیے، اس کا انجام نقصان ہی نقصان ہے، فرمایا: ’’اے ایمان والو! غیروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ، وہ تمہاری بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، انہیں وہی چیز پسند ہے جس سے تمہیں تکلیف پہنچے، ان کی باتوں سے تو دشمنی عیاں ہوچکی ہے اور جو کچھ ان کے سینوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بھی زیادہ بڑا ہے، اگر تم عقل سے کام لیتے ہو تو ہم نے تمہارے لیے نشانیوں کو بیان کردیا ہے، (آل عمران: 118)‘‘۔ بہت سے حضرات اپنا راز دوسروں پر افشا کرتے ہیں اور پھر اُن سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اُس پر پردہ ڈالے رہیں، جب ایک شخص خود اپنے رازوں کی حفاظت نہیں کرسکتا تو کسی دوسرے سے توقع رکھنا عبث ہے۔ رسول اللہ ؐ نے یہ بھی بتایا کہ بہت سے مفاسد کا منبع زبان ہے، آپ ؐ نے فرمایا: (1) ’’جو مجھے اس چیز کی (شریعت کے تابع رکھنے کی) ضمانت دے گا جو دو داڑھوں اور دو ٹانگوں کے درمیان ہے (یعنی زبان اور شرمگاہ)، تو میں اُسے جنت کی ضمانت دوں گا، (بخاری)‘‘۔ (2) ’’جو خاموش رہا، اس نے نجات پائی، (سنن ترمذی)‘‘۔ (3) ’’جب بنی آدم صبح کرتا ہے تو اُس کے تمام اعضازبان کے تابع ہوتے ہیں اور زبان سے کہتے ہیں: ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرتی رہ، کیونکہ ہمارے حقوق کی حفاظت تمہارے ذریعے ہے، اگر تو صحیح رہے گی تو ہم بھی صحیح رہیں گے اور اگر تو کجی اختیار کرلے گی تو ہم میں بھی کجی آجائے گی، (ترمذی)‘‘۔ (4) سفیان بن عبداللہ ثقفی نے عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے وہ چیز بتائیے جسے میں مضبوطی سے تھام لوں، آپ ؐ نے فرمایا: کہو: میرا ربّ اللہ ہے، پھر اس پر ثابت قدم رہو، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! وہ کون سی چیز ہے جس سے مجھے سب سے زیادہ خوفزدہ رہنا چاہیے، تو آپ ؐ نے اپنی زبانِ مبارک کو پکڑ کر فرمایا: یہ (یعنی زبان)، (ترمذی)‘‘۔ (5) ’’نبی ؐ نے فرمایا: جس نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کے عیب پر پردہ ڈالے گا اور جس نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کی پردہ دری کی تو قیامت میں اللہ تعالیٰ اُس کے عیب کو فاش کردے گا یہاں تک کہ اُسے اپنے گھر میں رسواکرے گا، (سنن ابن ماجہ)‘‘۔
اب حکومتِ وقت سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے اور اس پر کریک ڈاؤن کی بات کر رہی ہے، بدقسمتی سے سوشل میڈیا کے منفی استعمال کا شعار بھی ہماری آج کی حکمراں جماعت نے حزبِ اختلاف میں رہتے ہوئے رائج کیا اور اب اُسی کا ہتھیار اس کے خلاف استعمال ہورہا ہے اور وہ اس سے بچاؤ کی تدبیر اختیار کرنے پر مجبور ہے، ماضی کی حکومت نے جب سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی بات کی تھی تو جنابِ عمران خان نے اس کی شدید مخالفت کی تھی، لیکن: دیر آید درست آید، موجودہ حزبِ اختلاف یقیناًاس کی مخالفت کرے گی۔ ہمارے سیاسی رہنما ہرچیز کے حُسن وقبُح کے بارے میں وقتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ آج سوشل میڈیا موجودہ حکومت کے لیے دردِ سر بنا تو اس کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی تدبیر کی جارہی ہے، اس اقدام کا نیک نیتی پر مبنی ہونا صرف اُس صورت میں سمجھا جائے گا کہ حکومت خود بھی اپنے ماضی کے رویے پر اظہارِ ندامت کرے اور آئندہ اس کے ترک کا پختہ عزم کرے تو یہ اقدام قابلِ ستائش ہے، لیکن اگر اپنے خلاف مواد پر مواخذہ کرے اور دوسروں کی بدستور تضحیک کرے، تو اسی کو چنیدہ انصاف کہتے ہیں۔ البتہ جو لوگ اسلام دشمن عناصر بالخصوص قادیانی، سیکولرز لبرلز کا مہذب انداز میں ردّ اور اسلام کا دفاع کرتے ہیں، تو ان پر پابندی کا کوئی جواز نہیں ہے، ہمیشہ دائمی مفاد پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کی بابت ایک عالم نے کہا:
’’فوائد ونقصانات دونوں کے حامل جدید آلات کوان کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کا موازنہ کیے بغیر استعمال نہ کریں، انسان جلد باز ہے، وہ مثبت پہلوؤں سے جلد متاثر ہوتا ہے اور منفی گوشوں سے غفلت برتتا ہے۔ ذرائع ابلاغ واشتہارات کے ذریعے جب کسی نئی چیز کا فائدہ اس کے علم میں آتا ہے تو وہ فوراً اس کی طرف لپکتا ہے اور اس کے منفی پہلوؤں اور نقصانات پر غور نہیں کرتا۔ چنانچہ وہ نتائج سے بے خبر رہ کر بتدریج ان کے نقصانات کا شکار ہوجاتا ہے‘‘۔ اسلام نے شراب کی قطعی حرمت کا حکم نازل ہونے سے پہلے شراب اور جوئے سے اجتناب کے بارے میں یہی اصول تعلیم فرمایا: ’’(اے رسول!) وہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہیے: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے، (البقرہ: 219)‘‘۔ اسی کو فقہ کی اصطلاح میں ’’سدِّ ذرائع‘‘ کہتے ہیں، یعنی دفعِ شر کو حصولِ منفعت پر مقدم رکھنا۔ اس آفت میں بعض دین دار لوگ بھی مبتلا ہوگئے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی فہم میں شر کو خیر کے حصول کا ذریعہ بنارہے ہیں، کیونکہ اُن کے نزدیک اپنے مخالف کا رَد یا اہانت خیر ہے۔
سوشل میڈیا کے غیر دانش مندانہ استعمال کا نقصان دین کو بھی ہورہا ہے، بعض ایسے لوگ جو فتویٰ دینے کی اہلیت نہیں رکھتے، جہاد باللسان یا جہاد بالقلم سمجھ کر فتوے صادر کردیتے ہیں اور ردِّعمل میں لبرل طبقہ چاہتا ہے کہ صریح کفر کے سدِّباب کے لیے جہاں فتویٰ ضروری ہے، وہاں بھی پابندی لگا دی جائے تاکہ کفروضلالت کے آگے کوئی شرعی رکاوٹ ہی نہ رہے اور دین بازیچۂ اطفال بن جائے۔ یہ لوگ ’’قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت‘‘ کو بے اثر بنانے کے لیے شہادتِ مردودہ کو بہانہ بنا کر شعوری طور پر اسی حربے کو استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ماضی میں ’’اِنِ الْحُکمُ اِلَّا لِلّٰہ‘‘ (یعنی حکم اور فیصلہ تو اللہ ہی کا نافذہو گا) کا نعرہ لگا کر خوارج نے فتنہ برپا کیا جو مختلف صورتوں میں آج بھی جاری ہے، اسی حربے کی فتنہ سامانی پر سیدنا علیؓ نے فرمایا تھا: ’’یہ کلمۂ حق ہے، جسے باطل مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے‘‘۔ الغرض باطل کو حق کے لیے یا حق کو باطل کے لیے حربے کے طور پر استعمال کرنا کسی طور پر بھی جائز نہیں ہے۔