سی پیک کا تیسرا شراکت دار؟

272

 

 

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورۂ پاکستان بلاشبہ دورس اثرات کا حامل ثابت ہوگا۔ ولی عہد کو سعودی نظام میں ڈی فیکٹو سربراہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں جب سعودی فرماں روا پیرانہ سالی کا شکار ہوں تو ولی عہد ہی عملی طور پر اختیار کا مالک اور منبع ہوتا ہے۔ سعودی فرماں روا شاہ سلمان بھی اس وقت خاصے بزرگ ہیں اور یوں ولی عہد محمد بن سلمان کی سعودی نظام میں مرکزی اہمیت ہے۔ وہ سعودی عرب کا مستقبل ہیں۔ محمد بن سلمان ماضی کے سعودی شہزادوں اور حکمران طبقات سے اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ ان کی تعلیم امریکا اور برطانیہ کے بجائے سعودی عرب کے اداروں میں ہوئی ہے۔ اس طرح انہیں ’’میڈان سعودیہ‘‘ ہی سمجھا جاتا ہے۔ محمد بن سلمان سعودی عرب میں سخت اقتصادی اصلاحات پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے سعودی تاریخ میں پہلی بار طاقتور شخصیات پر ہاتھ ڈال کر کرپشن کی رقم وصول کی۔ محمد بن سلمان نے اٹھائیس سال کی عمر میں بطور وزیر خزانہ معاشی اصلاحات متعارف کرائی تھیں اب وہ بطور ولی عہد ان اصلاحات پر عمل کر رہے ہیں۔ محمد بن سلمان ولی عہد بننے کے بعد سعودی عرب یمن کی جنگ کی صورت میں ایک شدید چیلنج کا سامنا ہوا۔ یمن کا تنازع ایران اور سعودی عرب کے درمیان پراکسی جنگ بن کر رہ گیا۔ اب بھی خطہ اس جنگ میں اُلجھا ہوا ہے۔ سعودی عرب حال ہی میں امریکا کی دھمکیوں اور معاندانہ کارروائیوں کے ایک دور سے گزر چکا ہے۔ سعودی عرب اور امریکی اسٹیبلشمنٹ میں نائن الیون کے وقت سے ایک کھٹ پٹ چلی آرہی تھی نائن الیون کے حملہ آوروں میں اکثریت سعودی شہریوں تھی۔ امریکا کے سخت گیر پالیسی سازوں نے اسی بنا پر سعودی عرب کو نشانے پر رکھ لیا تھا۔ سعودی عرب کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی اسی وقت سے امریکا کے نشانے پر تھا۔ سعودی عرب بہت مشکل اور مہارت سے اس دلدل سے نکل آیا تھا مگر اس کے بعد سعودی عرب کی قیادت کو یہ احساس ہوا کہ امریکا پر انحصار کم کیے بنا کوئی چارہ نہیں۔ امریکا اور سعودی عرب کے اقتصادی اور دفاعی تعلقات آج بھی عروج پر ہیں مگر دونوں میں ہم آہنگی کی پرانی سطح شاید اب باقی نہیں۔ امریکی مدد سے شروع ہونے والی عرب بہار کی لہر کو سعودی عرب نے بہت مشکل سے اپنی حدود سے باہر روکنے میں کامیابی حاصل کی۔انہی تجربات اور حوادث نے سعودی عرب کو نئے راستوں اور نئے دوستوں کی تلاش کے سفر پر روانہ کیا ہے۔ تلاش کا یہی سفر سعودی عرب کو پاک چین اقتصادی راہداری میں شراکت داری کی جانب مائل کر رہا ہے۔
سعودی عرب پاکستان کا ہمہ موسمی دوست ہے۔ دونوں کے درمیان تجارتی، سفارتی، دفاعی اور روحانی تعلقات ہیں۔ سعودی عرب نے ہر مشکل لمحے میں پاکستان کی اقتصادی امداد کی ہے اور پاکستان نے سعودی عرب کے دفاع اور سلامتی کو درپیش مشکل مراحل میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ آج بھی جب پاکستان شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہے یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے چھ بلین ڈالر کی مدد دے کر پاکستان کی اقتصادی کشتی کو بھنور سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں معاشی اصلاحات کی راہ پر گامزن ہیں اور دونوں اپنے ملکوں کے وسائل لوٹنے والے بااثر طبقات اور شخصیات پر ہاتھ ڈالنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ قدر مشترک پاکستان کے لیے اچھا شگون ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد سلمان کے دورہ پاکستان کے دوران میں دونوں ملکوں میں مختلف شعبوں میں تعاون کے بیس ارب ڈالر کے منصوبوں کے معاہدات ہو گئے ہیں۔ سی پیک کے بعد اسے دوسری بڑی سرمایہ کاری کہا جارہا ہے۔ موجودہ حکومت نے سعودی عرب کو سی پیک کا تیسرا فریق اور شریک بنانے کی بات اشاروں کنایوں میں کی تھی۔ حکومت کی اس بات پر بہت سے حلقوں کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ چین کی اعلانیہ رضا مندی کے بغیر حکومت کا یہ اعلان چین کو ناراض کرنے کا باعث بنے گا۔ کئی ایک نے تو کسی خورد بین سے چینی قیادت کی جبینوں پر شکنیں پر دریافت کر لی تھیں۔ حکومت اس قدر بڑا فیصلہ محض یک طرفہ بنیاد پر نہیں کر سکتی تھی۔ اس اعلان سے پہلے لامحالہ چین اور سعودی عرب کی طرف قبول وایجاب کے کچھ اشارے ملتے پہلے ہی چین اس منصوبے میں دوسرے ملکوں کو شرکت کی دعوت دے چکا تھا۔ اب سعودی عرب کے ولی عہد پاکستان کے دورے پر تھے کہ چین کے ڈپٹی چیف آف مشن مسٹر چاولی جیان کی طرف سے ایک اہم بیان سامنے آیا ہے۔ جس کے مطابق سعودی عرب سمیت کوئی بھی ملک پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ بن سکتا ہے۔ کسی تیسرے فریق کو اسٹرٹیجک پارٹنر بنانے پر پاک چین بات چیت ہو سکتی ہے۔ تیسرے فریق کی سی پیک میں شمولیت پر بات چیت جاری ہے۔ مسٹر جیان نے اس بات کو دہرایا کہ سی پیک ایک گیم چینجر منصوبہ ہے اور اس سے پاکستان اقتصادی مرکز بنے گا۔
سی پیک کے پانچ سالہ منصوبے مکمل ہونے والے ہیں اب اقتصادی زونز قائم کیے جا رہے ہیں۔ ولی عہد کے دورہ پاکستان کے موقع پر چین کی طرف سے سی پیک کے تیسرے شراکت دارہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر پاک چین اسٹرٹیجک تعلقات میں سعودی عرب کے تیسرے شراکت دار کے طور پر گنجائش پیدا کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ اس طرح سعودی ولی عہد کا دورہ صرف پاک سعودی تعلقات کے حوالے ہی سے اہم نہیں بلکہ اس وقت پاکستان سعودی عرب اور دنیا کی اُبھرتی ہوئی معیشت چین کے درمیان بھی ایک پُل کا کردار ادا کررہا ہے۔ سی پیک کے مخالفین کی کوشش تھی کہ اس منصوبے کو پاکستان اور چین کے کسی فوجی گٹھ جوڑ کا کیمو فلاج بناکر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ اسے اقتصادی سرگرمی کے بجائے عسکری منصوبہ بنا کر پیش کریں۔ اس تاثر کو دور کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اس منصوبے میں چین اور پاکستان کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے ممالک بھی شریک ہوں اور یوں یہ دو ملکوں کے راز ونیاز کا شاخسانہ بنے رہنے کے بجائے ایک عالمی اور علاقائی اقتصادی سرگرمی کا حامل منصوبہ بن سکے۔ اسی سے منصوبے کی بین الاقوامی ساکھ قائم ہو سکتی تھی۔ سعودی عرب نے پہل کر کے اس منصوبے کا شراکت دار بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ سعودی عرب بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ خطے میں آرہا ہے تو یہ کوئی دوسرے ملکوں کی جھجک اور خدشات کو دور کرنے اور انہیں اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ دینے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ اس لحاظ سے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ دو ملکوں کے بجائے پورے خطے کے حوالے سے خاصی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے اثرات پورے خطے کی سیاست اور اقتصادیات پر مرتب ہونا یقینی ہے۔