اسلام نے خاندان کو خاص اہمیت دی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے تمام افراد پر ایک دوسرے کے حقوق مقرر کیے ہیں۔ لیکن والدین کا مرتبہ اور عظمت خاندان اور نسل کی نشوونما میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کریم نے ماں کے حق کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے ارشاد ربانی ہے: ’’اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرتے رہو) اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک نہ کہنا اور نہ ہی انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔ پرنسپل انفارمیشن آفیسر جناب میاں جہانگیر اقبال کے والد میاں محمد اقبال کے انتقال پر پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے میڈیا سینٹر میں تعزیتی تقریب ہوئی‘ وزارت اطلاعات و نشریات کے آفیسرز‘ اخبار نویس اور ملازمین کی ایک بڑی تعداد تعزیتی تقریب میں شریک ہوئی‘ سینئر اخبار نویس حافظ طاہر خلیل نے تقریب کی مناسب سے والدین کے حقوق پر قرآن وحدیث کی روشنی میں اور سرور کونین ؐ کی سنت کے حوالوں کے ساتھ ایسی گفتگو کی کہ محفل میں شریک ہر شخص نے نہایت انہماک اور پوری توجہ کے ساتھ ان کی گفتگو سماعت کی‘ اولاد پر والدین کے حقوق سے متعلق ایسی پر مغز اور ایمان افروز گفتگو کم ہی محفلوں میں سننے کو ملتی ہے‘ یقیناًایسی پر اثر گفتگو کہ محفل کے شرکاء میں جن جن خوش نصیبوں کے والدین زندہ ہیں‘ وہ ماں باپ کی عزت‘ احترام اور ان کے حقوق پورے کرنے کا مصمم ارادہ اور عزم لے کر محفل سے رخصت ہوا‘ اور وہ جن کے والدین زندہ نہیں ہیں‘ وہ والدین کے لیے ہر لمحے مغفرت کی دعا کرنے اور اسے اپنی نجات کا ذریعہ بنانے کے پختہ‘ پکا اور سچا فیصلہ کر کے رخصت ہوئے۔
اولاد پر والدین کا واقعی بہت حق ہے‘ اور انسان چاہے بھی تو یہ حق کبھی ادا نہیں ہوسکتا تاہم والدین کے ساتھ حس سلوک کی جن الفاظ میں قرآن اور حدیث میں نصیحت کی گئی ہے اسے پلے باندھے رکھنے ہی میں انسان کی نجات ہے۔ والدین کے حقوق کے بارے میں چند احادیث مبارکہ کا ذکر یہاں کرتے ہیں سیدنا عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریمؐ سے پوچھا: کیا میں جہاد کروں؟ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے ماں باپ (زندہ) ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: پھر تم ان کی خدمت میں جہاد کرو۔ جب تک جہاد فرض عین نہ ہو جائے اس وقت تک والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں شریک ہونا جائز نہیں ہے ایک دوسری حدیث مبارکہ ہے مالک بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ بنی سلمہ کے ایک آدمی نے نبی کریمؐ سے پوچھا: کیا ماں باپ کے فوت ہونے کے بعد بھی ان کے ساتھ کوئی نیکی کرنا میرے ذمے باقی ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ان کی نماز جنازہ پڑھنا، ان کے لیے استغفار کرنا، ان کے عہد کو پورا کرنا، ان کے دوستوں کی تعظیم کرنا اور ان کے رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا‘ ایک اور حدیث میں یوں بیان کیا گیا کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: (قیامت کے دن) تین قسم کے لوگ میرا چہرہ نہیں دیکھ سکیں گے ان میں سے ایک والدین کا نافرمان، دوسرا میری سنت کا تارک اور تیسرا جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہیں پڑھا۔
ابو امامہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبیِ اکرمؐ سے پوچھا: والدین کا ان کے بیٹے پر کیا حق ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیرے والدین تیرے لیے جنت ہیں یا دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ) یعنی والدین کی اطاعت اور خوش نودی بیٹے کو جنت میں لے جاتی ہے اور والدین کی نافرمانی ودِلآزاری بیٹے کے لیے دوزخ کا سبب بن سکتی ہے۔
محفل میں قبلہ طاہر خلیل نے ایک صحابی سیدنا القمی کا ذکر کیا کہ جان کنی کا لمحہ تھا لیکن روح نکل نہیں رہی تھی‘ چند صحابہ نبی اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قصہ بیان کیا‘ فرمایا کہ ان کی والدہ زندہ ہیں‘ بتایا گیا کہ وہ زندہ ہیں‘ نبی اکرمؐ نے فرمایا ضرور وہ ان سے ناراض ہوں گی‘ اللہ کے نبیؐ نے اس بات کی تصدیق بھی چاہی جب تصدیق ہوئی تو ان کی والدہ سے کہا کہ وہ انہیں معاف کردیں تاکہ ان کی جان نکل سکے ماں نے انکار کردیا‘ تو بنی اکرم ؐ نے فرمایا کہ لکڑیں اکٹھی کی جائیں صحابہ نے پوچھا کہ نبی کریمؐ یہ کس مقصد کے لیے فرمایا کہ وہ انہیں زندہ جلائیں گے‘ جب یہ بات والدہ تک پہنچی تو انہوں نے اپنے بیٹے کو معاف کرنے کا اعلان کیا اس اعلان کے ساتھ ہی ان کی جان نکل گئی‘ والدین کی ناراضی کی قیمت کیا ہے؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہی ایک واقعہ کافی ہے‘ اللہ تعالی ہم سب کو معاف کو فرمائے آمین ۔
موت برحق ہے اور اس سے فرار ممکن نہیں‘ لہٰذا ہمارے لیے سبق یہی ہے کہ ہم میں سے وہ خوش نصیب جن کے والدین حیات ہیں‘ وہ آج سے ہی عہد باندھ لیں کہ وہ بقیہ زندگی میں والدین کے ساتھ سچے دل سے حسن سلوک کریں گے اور ان کے ساتھ احسان کریں گے اور کچھ بھی ہوجائے اف تک نہیں کہیں گے۔ اسلام نے خاندان کو خاص اہمیت دی ہے بوڑھے والدین کو ’’اُف‘‘ تک کہنے سے بھی روکا گیا ہے یہی ہمارا امتیاز ہوگا‘ یہی کامیابی ہوگی یہی گولڈ میڈل اور یہی پی ایچ ڈی۔ والدین کے ساتھ تو حسن سلوک کی یہاں تک نصیحت کی گئی ہے کہ اگر وہ غیر مسلم بھی ہوں تب بھی ان کی تعظیم واجب ہے۔
سورۂ اسرا میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’اور عجز ونیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار! جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت) سے پرورش کیا ہے تو بھی ان (کے حال) پر رحمت فرما۔
اگرکوئی شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں اضافہ اور برکت ہو تو وہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے:
’’جوکوئی اپنے والدین کی طرف نفرت سے دیکھے جبکہ والدین نے اس پر ظلم بھی کیا ہو تب بھی اس کی نماز قبول نہیں ہو گی‘‘۔
رسول کریمؐ کے ارشاد کا مفہوم ہے: اللہ کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے اور سارے گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے معاف کردیتا ہے سوائے والدین کے ستانے کے کہ اس کی سزا مرنے سے پہلے جلد دنیا میں دے دیتا ہے۔ اگر والدین یا ان میں سے ایک غیر مسلم یا فاسق یا کافر ہو تب بھی قابل احترام ہیں‘ ان سے اچھے رابط رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جو شخص ماں کو گالی دے یا ان کے لیے ناز یبا الفاظ استعمال کرے گا وہ خدا کی رحمت سے دور ہو جائے گا۔ ماں باپ کی شان میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرنے والا سزا کا مستحق ہے اور اس کے لیے بربادی ہے۔
سیدنا ابن عباسؓ کا بیان ہے رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اپنے والدین کی طرف ایک مرتبہ رحمت کی نظر سے دیکھے خدا اس کے لیے ہر نظر کے بدلے ایک مقبول حج لکھ دے گا۔
صحابہؓنے عرض کیا کہ اگر کوئی سو مرتبہ دیکھے تب بھی یہی بات ہے؟ آپؐ نے فرمایا: خدا بہت بڑا ہے اور ہر عیب سے پاک ہے۔ اور رسول کریم ؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ باپ جنت کے دروازوں میں سے سب سے اچھا دروازہ ہے‘ اب تجھ کو اختیار ہے کہ اس دروازے کی حفاظت کرے یا ضائع کردے۔
بڑھاپے میں حسن سلوک کا خصوصی حکم:
اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر والدین کے بڑھاپے کا ذکر فرما کر ارشاد فرمایا کہ اگر ان میں سے کوئی ایک‘ یا دونوں تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو ’’اف‘‘ بھی مت کہنا اور نہ ان سے جھڑک کر بات کرنا۔
اللہ ربّ العزت نے بڑھاپے کی حالت کو خاص طور سے اس لیے ذکر فرمایا کہ والدین کی جوانی میں تو اولاد کو نہ کہنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ ہی جھڑکنے کی‘ جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہوتا ہے۔ البتہ بڑھاپے میں والدین جب ضعیف ہو جاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے۔ پھر بڑھاپے میں عام طور سے ضعیف کی وجہ سے مزاج میں چڑ چڑاپن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے‘ بعض دفعہ معمولی باتوں پر بھی والدین اولاد پر غصہ کرتے ہیں‘ تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کرکے حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں یا ناک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں۔ اس موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر بات کرنا تو دور کی بات ہے‘ ان کو ’’اُف‘‘ بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناگواری کا اظہار بھی مت کرنا۔
نبی کریمؐ کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’کیا میں تم کو سب سے بڑے گناہ نہ بتلا دوں۔ لوگوں نے عرض کیا‘ کیوں نہیں اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے فرمایا: اللہ کا شریک ٹھیرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ اگر والدین کی بے ادبی میں ’’اُف‘‘ سے کم درجہ ہوتا تو اللہ جل شانہ اسے بھی حرام فرمادیتے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ عبادت کے بعد اطاعت والدین کا درجہ ہے اور گناہ میں شرک کے بعد والدین کی نافرمانی کا درجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کے ساتھ نافرمانی کی مختلف قسم کی شدید سزائیں وارد ہیں۔