کوئی پاگل ہی تائید کرسکتا ہے

260

14فروری 2019 پلوامہ میں بھارتی نیم فوجی دستے پر حملے کے بعد بھارت میں پاکستان مخالف جذبات عروج پر ہیں۔ اس حملے میں چالیس سے زائد بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ پورا بھارت صدمے اور ہیجان کے عالم میں ہے۔ پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ وزیراعظم مودی کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان سے بات چیت کا وقت ختم اب کاروائی کا وقت ہے‘‘۔ ایک اور موقع پر انہوں نے کہا ’’پاکستان تیار ہوجاؤ اب ہماری باری ہے‘‘۔ بھارتی میڈیا چیخ چیخ کر پاکستان کو حملے میں ملوث قرار دیتے ہوئے حکومت پر پاکستان کے خلاف بڑی کاروائی پر مُصر ہے۔ پاکستانی میڈیا اس حملے کو خود بھارت کی کاروائی قرار دے رہا ہے اور اس حملے سے پاکستان کے کسی بھی تعلق کو رد کررہا ہے۔ ایک پاکستانی نے ٹویٹ میں مسٹر بین کی تصاویر پوسٹ کی ہیں جن میں وہ کھیتوں میں کھڑا بار بار گھڑی دیکھتے ہوئے کہہ رہا ہے ’’ہم پاکستانی بھارتی حملے کا انتظار کررہے ہیں‘‘۔ اس پوسٹ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں پلوامہ حملے پر بھارتی سیاست دانوں کے ردعمل کو بہت ہلکے پھلکے انداز میں لیا جارہا ہے جب کہ دوسری طرف بھارتی میڈیا ہسٹریائی کیفیت میں ہے۔ بھارتی عوام کا جنگی جنون بھی دیدنی ہے۔ انڈیا گیٹ پر بی جے پی کے اراکین پارلیمنٹ کی معیت میں ایک جم غفیر لاہور اور مظفر آباد پر بھارتی پرچم لہرانے اور کشمیری مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے بے تاب تھا۔ نریندر مودی کے حکم پر بی جے پی کے وزراء اور پارٹی لیڈروں نے حملے میں ہلاک ہونے والے بھارتی اہلکاروں کے گاؤں اور محلوں میں جاکر آخری رسوم میں شرکت کے نام پر ان علاقوں میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ پورا بھارت خوف کی نفسیات میں مبتلا ہے۔
ان دنوں جب کہ بھارتی وزیراعظم آگ اگل رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک معرکہ آرا خطاب کیا۔ یہ ایک بہترین خطاب تھا جس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔ بہت دن بعد قوم نے ایک مختصر اور مدلل تقریر سنی جس میں پاک بھارت امن کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ یہ الگ بات کہ پاک بھارت امن کا ہر راستہ اب مسئلہ کشمیر سے پہلو بچا کر گزرتا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کے لیے کبھی کشمیر ایک گمبھیر اور متنازع مسئلہ تھا۔ اب محض اصولی حمایت تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ وزیراعظم کے حالیہ خطاب میں اتنا بھی نہیں رہا۔ سات دہائیوں سے بھارت اہل کشمیر کے خلاف برسر پیکار ہے۔ سات لاکھ فوجی اور نیم فوجی قابض بھارتی دستے 80لاکھ کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اس قبضے کے خلاف مجاہدین آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جسے آج کل دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم نے بھی اس جدوجہد کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ’’ہم خطے میں دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں‘‘۔ کیسی دہشت گردی؟ پلوامہ حملہ دہشت گردی نہیں مجاہدین کی بھارتی قابض فوج کے خلاف ایک اہم کا میابی ہے۔ دہشت گردی قابض بھارتی افواج کررہی ہیں جو وحشیانہ طریقے سے نہتے کشمیری مسلمانوں کو شہید کررہی ہیں۔ جولائی 2016 میں بھارتی درندوں کے ہاتھوں برھان وانی کی شہادت کے بعد یہ حملہ مجاہدین پر قرض تھا۔ ہمارے نئے پاکستان کے وزیراعظم نے اس حملے کو جارحیت اور دہشت گردی سے جوڑ دیا۔ یہ بیان مودی کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے مزید کہا ’’اگر کوئی بھی پاکستانی زمین استعمال کررہا ہے تو یہ ہمارے مفاد کے خلاف ہے‘‘۔ اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ ’’اگر کوئی بھی پاکستانی سرزمین مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے خلاف استعمال کررہا ہے تو یہ پا کستان کے ساتھ دشمنی ہے‘‘۔ ایک وقت تھا پاکستان کے حکمران کشمیریوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ ان کی جدو جہد کی حمایت کرتے تھے۔ اعلان کرتے تھے جدوجہد آزادی میں ہم کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ لیکن آج ہمارے حکمران اس کردار پر شرمندہ ہیں۔ افغان مجاہدین کے خلاف امریکی اسلحہ، شراب اور سور کا گوشت پاکستان کی سرزمین سے گزر سکتا ہے۔ امریکی ڈرون آزادی سے پاکستان کی فضاؤں میں پرواز کرسکتے ہیں، پاکستان اور افغانستان میں مسلمانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ امریکی طیارے پاکستان کی سر زمین سے اڑکر افغان مسلمانوں پر بمباری کرسکتے ہیں۔ لیکن کشمیری مجاہدین کی مدد کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال نہیں کی جاسکتی۔ جو پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع علاقہ ہے۔
بھارت کی جانب سے کسی بھی چھوٹے بڑے حملے کی صورت میں پاکستان پر الزام لگانا اب روایت بنتی جارہی ہے۔ عالمی برادری بھی جسے سنجید گی سے نہیں لیتی۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان پر الزام لگانے کے بجائے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ مل بیٹھ کر مسئلے کو حل کریں۔ سعودی عرب نے بھارتی دعوے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا حملے میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا جس میں پاکستان کی طرف انگلی اٹھائی گئی ہو۔ چین نے بھی بھارتی الزامات کو یکسر مسترد کردیا۔ عام تاثر یہی ہے کہ نریندر مودی اس حملے سے انتخابات میں فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان دشمن ماحول پیدا کررہے ہیں۔ لیکن وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کو خود کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے پلوامہ حملے میں تحقیقات کی پیش کش کردی۔ ’’بھارت کے پاس شواہد ہیں تو دے ہم کاروائی کریں گے‘‘۔ یہ پیش کش بیرونی مداخلت کا راستہ کھولنے کے مترادف ہے۔ ’’ہمیں کیا ضرورت تھی کہ ہم یہ کریں گے جب کہ ہمارا مہمان آیا ہوا تھا، انوسٹمنٹ کانفرنس ہورہی تھی‘‘۔ وزیراعظم کو اس قدر گھگیانے کی، معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جب کہ کسی بھی بین الاقوامی فورم کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام نہیں لگایا گیا۔ کیا فائدہ ہوا ان التجاؤں کا؟ قوم کو ذلیل کرنے کا؟۔ بھارتی حکومت اور میڈیا نے اسے حقارت سے اڑا کر رکھ دیا۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات کے انعقاد پر زور دیا جب کہ مثال افغانستان کی دی ہے جہاں افغان مجاہدین سترہ برس سے امریکا کے خلاف جہاد کررہے ہیں۔ امریکا اور اس کے حلیف ممالک اتنے ہی برس سے اس جہاد کو دہشت گردی کہتے آرہے ہیں۔ مجاہدین نے جس کی کبھی پروا نہیں کی۔ یہ طالبان کی مجاہدانہ کاروائیاں ہی ہیں جنہوں نے امریکا کو ناک رگڑنے اور مذاکرات کی بھیک مانگنے پر مجبور کردیا۔ پاکستان اور دیگر ایجنٹ ممالک کی مدد سے امریکا افغانستان کی ہاری ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر جیتنا چاہتا ہے۔ ہم نے آزاد کشمیر اور بھارت نے مقبوضہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حاصل نہیں کیا۔ بھارت نے مذاکرات کے ذریعے مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش نہیں بنایا بھارت نے مذاکرات کے ذریعے سیاچن پر قبضہ نہیں کیا۔ امریکا نے افغانستان اور عراق پر قبضے کے لیے مذاکرات نہیں کیے۔ اسرائیل نے مذاکرات کے ذریعے خطے میں طاقت حاصل نہیں کی۔ وہ بھارت جو لاکھ منت سماجت کے باوجود مذاکرات پر آنے کے لیے تیار نہیں۔ مذاکرات کی ہر پیشکش کو دہشت گردی کے خاتمے سے مشروط کرکے پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کردیتا ہے۔ آپ مذاکرات کے ذریعے اس سے مقبوضہ کشمیر حاصل کرسکتے ہیں؟ کوئی پا گل ہی اس بات کی تائید کرسکتا ہے۔