کرپٹ عناصر کی گرفتاریاں ناگزیر ہیں! 

182

تحریک انصاف کے رہنما اور وزیراعظم عمران خان کے قریبی دوست علیم خان کی 6 فروری کو گرفتاری کے بعد ’’علیم خان کی گرفتاری‘‘ کے عنوان سے 9 فروری کو شائع ہونے والے کالم میں میں نے یہ واضح کردیا تھا کہ علیم خان کی گرفتاری اس بات کا اشارہ ہے کہ جلد ہی سندھ اور پنجاب کے اہم سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں گی اور محض 14 دن بعد ایسا ہی ہوا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو گرفتار کرلیا۔ ان پر آمدنی سے زاید اثاثے بنانے کا الزام ہے اور انہیں ریمانڈ کے لیے احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔
آغا سراج کی گرفتاری کے بعد پیپلز پارٹی کے صوبائی رہنما اور سندھ کے مشیر قانون مرتضٰی وہاب نے مقامی ٹی وی چینل کو اپنا رد عمل دیتے ہوئے انتہائی معصومیت سے سوال کیا کہ ’’نیب نے آغا سراج کو گرفتار کرکے کیا پیغام دیا ہے؟‘‘۔ ممکن ہے کہ بیرسٹر مرتضٰی وہاب یہ سمجھتے ہوں کہ ’’آغا سراج کو بلاوجہ ہی گرفتار کیا گیا ہے کیوں کہ وہ تو بہت ایماندار دیانتدار سیاسی شخصیت ہیں؟‘‘۔ لیکن نیب کا کہنا ہے کہ آغا سراج پر آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے اور سرکاری فنڈز میں خوردبرد کے ساتھ غیر قانونی بھرتیاں کرانے کے بھی الزامات ہیں۔ آغا سراج درانی پیپلز پارٹی میں زرداری دور شروع ہونے کے بعد سے پارٹی کی اہم شخصیت میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انہیں بھی سیاست ورثے میں ملی ہے۔ وہ سندھ اسمبلی کے سابق اسپیکر آغا صدرالدین کے بیٹے اور آغا بدرالدین کے بھتیجے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے راولپنڈی میں قتل کے بعد ہونے والے 2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے وفاق اور سندھ میں کامیاب ہوکر حکومت بنائی تو آغا سراج درانی صوبائی وزیر بلدیات بنے۔ لیکن تقریباً 3 سال بعد ان سے وزیر بلدیات کا قلم دان واپس لے لیا گیا تھا۔ وزیر بلدیات رہنے کے دوران ان پر لوکل گورنمنٹ بورڈ میں سیکڑوں افراد کو خلاف قانون ملازمتیں دینے کا الزام بھی ہے۔ واقف حال لوگوں کا کہنا ہے کہ اس دوران صوبائی وزیر کے حکم کی جانے والی بیش تر بھرتیاں مبینہ طور پر دو سے 15 لاکھ روپے فی کس کے حساب سے کی گئیں تھیں۔ 20 فروری کو اسلام آباد سے آغا سراج کی گرفتاری کے بعد کراچی میں رات ان کے بنگلے پر بھی نیب نے چھاپا مارا اور گھر کی تلاشی لی گئی۔ اس دوران میں نیب کی ٹیم میں خواتین بھی شامل تھیں۔
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری اور گھر پر چھاپے کے بعد پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور پارٹی کی قیادت کی طرف سے جس طرح کا ردعمل سامنے آرہا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آغا سراج درانی پارٹی کے لیے ڈاکٹر عاصم اور سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ بھاری جسامت کے آغا سراج درانی کی گرفتاری کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ چند روز میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، آصف زرداری کی بہن فریال تالپور سمیت دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ آصف زرداری، مرادعلی شاہ اور فریال تالپور کے خلاف منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے نیب تحقیقات کررہا ہے۔ اس مقدمے میں آصف زرداری اور دیگر نے ضمانت قبل از گرفتاری بھی حاصل کی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی ملک کی وہ بڑی جماعت ہے جس پر الزام ہے کہ اس کے رہنماؤں اور دیگر شخصیات نے ہر دور حکومت میں سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا ہے۔ آصف زرداری تو سوئس بینک اکاؤنٹس اور قتل کے مقدمات میں گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں نیب نے آصف زرداری کو ان ہی مقدمات میں گرفتار کیا تھا۔ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور بعدازاں مسلم لیگ کے صدر نواز شریف اور شہباز شریف پر کرپشن کے الزامات اور ان کی گرفتاریوں سے جس قدر بدنام ہوچکی ہے وہ بھی ایک داغ سے کم نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عام لوگ ایسی جمہوریت اور سیاست سے پناہ مانگتے نظر آتے ہیں۔ جمہوریت اگر اپنے معنی کے مطابق عوام کے لیے فائدہ مند ہوتی تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے تین تین ادوار میں اس کے فوائد سامنے آ چکے ہوتے۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ جبکہ اس کے برعکس سیاست کی آڑ میں ’’کرپشن و کریمنل کلچر‘‘ نے فروغ پایا۔ جس میں تیزی 2008 کے عام انتخابات کے بعد ہوئی۔
اگر 2018 کے انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کامیاب ہوکر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی تو آج بھی صورتحال ماضی کی طرح ہوتی اور ’’کرپٹ جمہوریت‘‘ مستحکم نظر آتی۔ یہ اس قدر مضبوط ہوتی کہ آج نیب آزاد نہیں ’’قید‘‘ میں ہوتی، کراچی کچھ نہیں تو کم ازکم چیئرمین جاوید اقبال نہیں ہوتے۔ لیکن یہ عوام کی خوش قسمتی ہے کہ رواں جمہوری دور دیگر جمہوری ادوار سے مختلف ہے۔ اس دور میں کم ازکم بیک وقت تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے کرپٹ عناصر کا احتساب تو جاری ہے۔ ورنہ اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا۔ اس بار نیب آزاد ہے اس کے موجودہ چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کا تقرر مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی 2013 تا 2018 تک رہنے والی جمہوری حکومت نے قانون اور آئین کے اصولوں کے تحت کیا تھا۔ اگر آج کی نیب کچھ غلط کررہی ہے تو اس کے چیئرمین کا تقرر کرنے والے سب ہی سیاسی چمپئن بھی غلط ہیں۔ انہیں اعتراف کرنا پڑے گا کہ ان کی غلطی سے ہم نے ایک ایسے چیئرمین کا تقرر کیا ہے جو سیاست دانوں کی خواہشات کے خلاف فرائض انجام دے رہے ہیں۔ لیکن عام تاثر یہ ہے کہ اگر نیب سیاستدانوں کی خواہشات کے مطابق کام نہیں کررہا ہے بہت ہی اچھا کررہا ہے۔
کیوں کہ قومی احتساب بیورو اور دیگر اس جیسے اداروں کا کام سیاستدانوں اور بااثر افراد کی خواہشات پوری کرنا یا کرانا نہیں بلکہ قوانین کے مطابق کرپٹ عناصر کو پکڑ کر ان سے قانون کے مطابق نمٹنا ہے۔ اگر احتساب کے اس آزادانہ، منصفانہ اور شفاف عمل سے کسی کو اعتراض ہو تو کوئی بات نہیں، اس طرح کے اعتراضات کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ کیوں کہ یہ بات طے ہے کہ جب تک ملک میں موجود کرپٹ اور کریمنل عناصر کا خاتمہ نہیں ہوگا اس وقت تک ملک ہی کیا اس کا کوئی شعبہ ترقی نہیں کرسکے گا۔
قوم کو یقین ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی طرح اگر آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں نے بھی ملک کو مالی اور انتظامی نقصان پہنچایا ہے تو وہ بھی جلد قانون کی سخت گرفت میں ہوں گے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ عام افراد تمام صورتحال کا بغور جائزہ لیکر ہمیشہ اپنے درمیان موجود ایسے لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیجنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں جو ذاتی خواہشات کے بجائے ملک اور عوام کی ضروریات کے مطابق کرپشن فری ماحول کے لیے سیاسی جدوجہد کررہے ہوں۔