زہر خورانی سے بچاؤ کی عملی تدابیر

600

فوڈ پوائزننگ یعنی زہر خورانی کے پے در پے واقعات اور اس میں معصوم جانوں کے ضیاع پر عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ہنستے مسکراتے پھولوں کے اس طرح اچانک دنیا سے چلے جانے پر جہاں درد دل رکھنے والا ہر شخص افسردہ ہے وہیں یہ فکر بھی کھائے جا رہی ہے کہ اپنے بچوں کو کس طرح زہر خورانی سے محفوظ رکھا جائے اور اگر حادثاتی طور پر ایسا کوئی واقعہ ہو جائے تو فوری طور پر کیا تدابیر اختیار کی جائیں۔ یہ حقیقت ہے کہ گھر کے کھانے کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا اور اپنے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا ہی صاف ستھرا اور قابل اعتماد ہوتا ہے لیکن بعض اوقات بچوں کی ضد یا کسی اور وجہ سے باہر سے کھانا بھی کھانے کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے ۔ ضروری نہیں ہے کہ باہر سے لیا گیا ہر کھانا ہی زہریلا یا مضر صحت ہو البتہ کھانا خریدتے وقت یہ بات لازمی دھیان میں رکھنی چاہیئے کہ جس جگہ سے کھانا خرید رہے ہیں وہاں صفائی ستھرائی کی کیا صورتحال ہے اور وہاں زائدالمیعاد اشیاء تو استعمال نہیں کی جا رہیں۔ زہر خورانی مختلف نوعیت کی ہو سکتی ہے اور عموماً یہ زیادہ خطرناک نہیں ہوتی البتہ بعض اوقات یہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ زہر خورانی کے علامات کھانے کے ایک گھنٹہ بعد سے 28 روز تک ظاہر ہو سکتی ہیں۔ اگر کھانے کے بعد فوری طور پر الٹیاں آنے لگیں یا پھر پیٹ درد اور ہیضے کی شکایت ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ کھایا گیا کھانا مضر صحت تھا ۔ یہ زہر خورانی کا سب سے ابتدائی لیول ہے جو کہ عموماً زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوتا اور ایک سے دو دن میں ہی متاثرہ فرد بالکل ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ان علامات کی صورت میں متاثرہ فرد کو کچھ گھنٹے کھانے پینے کی اشیا نہیں دینی چاہئے خصوصی طور پر فرائیڈ یا اسپائسی فوڈز اور میٹھے سے گریز کرنا چاہیے۔ الٹیوں اور ہیضے کی صورت میں پانی پلاتے رہنا چاہیے تا کہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہو ۔ الٹیوں یا ہیضے کی دوا ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہیں لینی چاہیے ورنہ یہ صورت حال کو مزید خراب کر سکتی ہے ۔ اگر زہر خورانی کے بعد الٹیوں اور ہیضے کے ساتھ ساتھ شدید بخار ہو جائے ، معدے میں درد ہو ، بصارت دھندلانے لگے یا پیشاب اور الٹی میں خون آنے لگے تو یہ خطرناک ہو سکتا ہے ایسی صورت میں فوری طور پر مریض کو اسپتال لے کر جانا چاہیے۔  گھر میں موجود کئی اشیاء مثلاً صابن ، کریمیں ، کیڑے مار ادویات اور مٹی کا تیل وغیرہ بھی زہریلی ثابت ہوسکتی ہیں کیونکہ ایسے واقعات بھی بارہا سامنے آئے ہیں کہ معصوم بچے لاعلمی میں ان چیزوں کو منہ میں ڈال لیتے ہیں ۔ ایسا ہونے کی صورت میں اگر متاثرہ فرد ہوش میں ہو تو اس سے فوری طور پر زہر کی نوعیت اور مقدار ہوچھیں اور قے کروانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ منہ اور ہونٹوں پر جلنے کے نشانات ہوں تو دودھ یا پانی پلانا چاہیے ۔ سانس یا دل کی دھڑکن رک جانے کی صورت میں منہ در منہ طریقے سے سانس جاری رکھنے کی کوشش کریں اور جتنی جلدی ممکن ہو متاثرہ فرد کو اسپتال لے کر جائیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ اگر کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو فوڈ پوائزنگ کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ کھانا پکانے سے پہلے اپنے ہاتھ لازمی دھوئیں۔ کچے گوشت کو ہاتھ لگانے کے بعد دیگر کھانے کی اشیاء کو چھونے سے پہلے ہاتھ دھوئیں۔ کٹنگ بورڈ پر گوشت وغیرہ کاٹنے کے بعد دیگر سبزیاں کاٹنے سے پہلے اسے ڈش واشر سے اچھی طرح صاف کرلیں ۔ اگر ممکن ہو تو گوشت اور سبزیوں کے لیے الگ کٹنگ بورڈ کا استعمال کریں ۔ کچے گوشت کو کھانے کی دیگر اشیاء مثلاً پھلوں اور سلاد سے بالکل الگ رکھیں۔ کچے دودھ کو ہرگز نہ پئیں اور نہ ہی براہ راست کسی کھانے میں شامل کریں۔ دودھ اور گوشت والے کھانوں کو اچھی طرح پکائیں اگر باہر سے خریدے ہوئے کھانے میں یہ محسوس ہو کہ گوشت اچھی طرح گلا ہوا نہیں ہے تو ایسے کھانے کو بالکل نہ کھائیں۔ بچ جانے والے کھانے کو فوری طور پر فریج میں رکھ دیں۔ فریج میں رکھے ہوئے کھانوں کو بھی دو دن کے اندر اندر اگر استعمال کر لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے ۔ زائد المیعاد اشیاء کو ہرگز استعمال نہ کریں کیونکہ کچھ پیسوں کی بچت کے چکر میں آپ کو اسپتال کے کئی چکر لگانے پڑ سکتے ہیں ۔