ٹیکس وصولی کے لیے حکومت کی جلد بازی اور بے تابی 

261

ٹیکسوں کی وصولی حکومت کی اہم بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے۔ ٹیکسوں کی رقومات ہی سے کاروبارِ حکومت کے اخراجات پورے ہوتے ہیں، قرض اگر لیے ہوئے ہوں تو ان کی ادائیگی ہوتی ہے، عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبوں کا دارومدار بھی ٹیکسوں پر ہے، ملک کی سلامتی و دفاع کے لیے مختلف سطح کے عسکری اداروں کی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ بھی یہی رقومات ہیں۔ پہلے زمانے میں جب راجے مہاراجے، بادشاہ اور عالم پناہ کا سکہ چلتا تھا تو اس وقت معاشرے میں دو ہی طبقات ہوتے تھے، ایک طرف اشرافیہ جس میں شاہی اہلکار، شاہی خاندان، وزرا اور اعلیٰ سرکاری اہلکار شامل ہوتے تھے۔ دوسری طرف ہاری کسان، مزدور خوانچہ لگانے والے اور سرکار کی خدمت بجا لانے والے خادم اور ملازمین۔ بادشاہ وقت اور سرکاری اہلکار طرح طرح کے ظالمانہ ٹیکس لگا کر غریبوں کا خون چوستے تھے اور جواز یہ تھا کہ حکومت چلانے کے لیے یہ ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ بادشاہ کا فرمان قانون بن جاتا تھا اور پوری سلطنت میں اس پر عملدرآمد شروع ہوجاتا تھا۔ ٹیکسوں کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہ تھا جس کاروبار یا جس ذریعہ معاش میں کچھ بہتری یا خوشحالی نظر آتی اس پر کسی نہ کسی انداز میں ظالمانہ ٹیکس نافذ کردیا جاتا ہے۔
اس صورت حال میں اٹھارویں صدی کے آخر میں مشہور ماہر معاشیات ایڈیم اسمتھ نے ٹیکسوں کی وصولیابی کے لیے چار اہم اصول تجویز کیے جو اتنا وقت گزرنے کے بعد آج بھی معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ پہلا اصول مساوات کا ہے یعنی ٹیکس کا بوجھ معاشرے کے ہر فرد پر اس کی مالی حیثیت کے مطابق یکساں ہونا چاہیے جس کے پاس زیادہ دولت ہے اس سے زیادہ اور جس کے پاس کم ہے اس سے ٹیکس کم وصول کیا جائے۔ دوسرا اصول یقین اور معلومات کا ہے۔ اس کا مطلب ہے جس پر جتنا ٹیکس لاگو ہے اسے اس ٹیکس کا صحیح علم ہونا چاہیے اور غیر یقینی کی کیفیت نہیں ہونی چاہیے۔ تیسرا اصول سہولت اور آسانی کا ہے یہ اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ لوگوں کے لیے ٹیکس ادا کرنا آسان ہو، اس میں پیچیدگیاں اور مشکلات نہ ہوں، ٹیکس دہندہ باآسانی ٹیکس دے سکے۔ جب کہ چوتھے اصول کا تعلق اخراجات سے ہے یعنی ٹیکس جمع کرنے والے عملے کا خرچ کم سے کم ہو، ایسا نہ ہو کہ جمع شدہ ٹیکس کا بڑا حصہ اس عملے کی تنخواہ اور دیگر مراعات میں ختم ہوجائے۔
اس وقت پاکستان میں وفاقی حکومت ٹیکسوں میں اضافے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے، لیکن اس کے باوجود جولائی تا دسمبر 2018ء میں ریونیو کی وصولی میں 190 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے اس سلسلے میں مختلف تجاویز سامنے آئی ہیں۔ مثلاً زرعی انکم ٹیکس اور خدمات پر جنرل سیلز ٹیکس کو صوبوں سے لے کر وفاقی حکومت یہ ٹیکس جمع کرے۔ لیکن اس سلسلے میں صوبہ سندھ اور پنجاب کی طرف سے مخالفت سامنے آئی ہے کہ یہ ٹیکس صوبے بہتر طریقے سے جمع کرسکتے ہیں۔ صوبہ سندھ نے اسے 18 ویں آئینی ترمیم میں مداخلت قرار دیا ہے اور بلاول زرداری نے لانگ مارچ کا عندیہ دیا ہے۔ وفاق کا کہنا یہ ہے کہ انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی، ورکرز ویلفیئر فنڈ، ای او بی آئی میں تعاون، سوشل سیکورٹی اور اس طرح کے دوسرے اداروں کے ٹیکسوں کو ملا کر ایک کاروباری ادارے کو 47 ٹیکس ادا کرنا ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک پر دستاویزات کی تیاری، قانونی شرائط پورا کرنے اور ٹیکس ادا کرنے میں اِن اداروں کا وقت اور دوسرے وسائل خرچ ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ کاروبار کو مزید مشکل بنادیتا ہے اور اسی وجہ سے کاروبار میں آسانی (ease of doing business) میں پاکستان بہت پیچھے ہے جب کہ دنیا کے مختلف ممالک میں زیادہ سے زیادہ 10 قسم کے ٹیکس ادا کرنا ہوتے ہیں اور یہ صورت حال پاکستان میں سرمایہ کاری میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس وجہ سے وفاقی حکومت 47 قسم کے ٹیکسوں کو ملا کر ان کی تعداد 16 کرنا چاہتی ہے اور ٹیکس جمع ہونے کے بعد ہر ادارے کو اس کا حصہ مل جائے گا لیکن اس پر صوبوں سے مثبت ردعمل وفاق کو نہیں ملا ہے۔
اس کے بعد ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں اور وفاق کا جو حصہ ہے یعنی 42.5 اور 52.5 فی صد۔ اب وفاق کا یہ موقف سامنے آرہا ہے کہ فاٹا جو صوبہ کے پی کے کا حصہ ہے اور اس کی ترقی و بہتری کے لیے فنڈز چاہئیں۔ دوسری طرف 2017ء کی مردم شماری کے مطابق آبادی کا توازن مختلف صوبوں میں تبدیل ہوا ہے، لہٰذا بین الصوبائی قابل تقسیم فنڈ میں ردوبدل کی ضرورت ہے، اس پر بھی سندھ نے مخالفت کا اظہار کیا ہے کہ ہمیں تو پہلے ہی اپنے حصے سے کم فنڈ وصول ہوئے ہیں، اصل میں اٹھارویں آئینی ترمیم اور ساتویں این ایف سی ایوارڈ نے وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل اور ذمے داریوں کی تقسیم میں ایک توازن قائم کیا ہوا ہے جس کا اظہار ملک میں مختلف طبقوں اور حلقوں کی جانب سے ہوا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت اس میں کوئی چھیڑ چھاڑ کرتی ہے تو اس سے افراتفری پھیلے گی اور صوبائیت و لسانیت کی فضا ہموار ہوگی۔ چناں چہ سب سے بہتر متبادل یہ ہے کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے اور وفاق کے زیر انتظام جو ادارے اور ڈویژن غیر فعال اور غیر ضروری ہیں ان کو ختم کیا جائے، ورنہ ملک میں احتجاج، مظاہروں اور ہنگاموں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا جس سے یہ لڑکھڑاتی حکومت ختم بھی ہوسکتی ہے۔