اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا

386
“اقراء” کا پہلا سبق لیے دین کامل اسلام اور اسلام کے نام پر بننے والی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستانی بدقسمتی سے ایسا ملک ہے جہاں تعلیم کبھی بھی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی شرح خواندگی بہت متاثر ہے اور ملک کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہونے کے باوجود ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہیں  ہو سکے ۔
گو کہ سرکاری اسکولوں میں میٹرک تک تعلیم مفت کی گئی ہے لیکن بیشتر سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا معیار اور اسکولوں کی اپنی حالت ایسی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ان اداروں میں بھیجتا وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔
سال 2018 میں جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان بھر میں تیس ملین کے قریب بچے ایسے ہیں جو اسکول نہیں جاتے۔ یونیسکو کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد نائجیریا کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔  ان اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی صورتحال کس حد تک متاثر ہے۔
دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح تعلیمی میدان میں بھی لڑکیاں جنسی تفریق کا شکار نظر آتی ہیں اور پرائمری سکول نہ جانے والے 5 ملین بچوں میں سے ساٹھ فیصد لڑکیاں ہیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں لڑکیوں کی بنسبت لڑکوں کے لیے پرائمری اسکول تک جانے کا تناسب 15 فیصد زیادہ ہے۔
سکینڈری اسکولوں میں یہ شرح مزید بدتر ہو جاتی ہے اور سال 2018 کی رپورٹ کے مطابق صرف سوا چھ لاکھ کے قریب لڑکیوں نے سیکنڈری اسکولوں میں داخلہ لیا اور ان میں سے بھی میٹرک لیول تک پہنچنے تک بڑی تعداد اسکول چھوڑ چکی ہوتی ہے۔
ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ اسے حصول تعلیم کے مواقع میسر کیے جائیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے بلندوبانگ دعوے کیے گئے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دعوے محض دعوے ہی رہیں گے یا حکومت بجٹ میں تعلیم کے لئے خاطر خواہ حصہ مختص کرے گی اور اسے تعلیمی صورتحال بہتر کرنے کے لئے ایمانداری سے استعمال کرے گی یا پھر گذشتہ حکومتوں کی طرح یہ دعویٰ بھی محض دعویٰ ہی رہ جائے گا ۔پاکستان نے بہت لمبا عرصہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ لڑی ہے۔
اس سب کے دوران ملک جہاں دیگر میدانوں میں بہت پیچھے رہ گیا وہی تعلیمی صورتحال بھی بہت گراوٹ کا شکار ہوئی ہے البتہ اب ملکی حالات استحکام کی جانب گامزن ہیں لہٰذا یہ امر ضروری ہے کہ نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے فوری کوششیں کی جائیں ۔ یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے اور عوام کے ذہنوں میں حصول تعلیم کا مقصد اور شعور بھی بیدار کیا جائے۔
اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا
ہے خون فاسد کے لیے تعلیم مثل نیشتر