بارشیں اور برفباری…. اللہ کی رحمت اور انعام

212

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں اب تو انسان نے آب رسانی کے کتنے ہی طریقے ایجاد کرلیے ہیں وہ مصنوعی بارشیں برسانے کا تجربہ بھی کرچکا ہے لیکن دُنیا آج بھی قدرتی بارش ہی سے فیض پارہی ہے۔ قرآن کریم میں کتنے ہی مقامات پر بادل، بارش اور ان ہواؤں کا ذکر آتا ہے جو بارش برسانے کا سبب بنتی ہیں۔ بارش برستی ہے تو مردہ زمین جی اُٹھتی ہے، اس میں روئیدگی آجاتی ہے، زمین میں پڑے ہوئے بیج پھوٹ پڑتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پودے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ بارش سے فصلوں میں جان آجاتی ہے، کھیت لہلہانے لگتے ہیں، بالیوں میں چھپے گندم کے دانے موٹے ہوجاتے ہیں اور ان کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں فصلوں کا تمام تر انحصار بارش پر ہے۔ بارش وقت پر نہ ہو یا ضرورت سے کم ہو یا بالکل ہی نہ ہو تو قحط کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے اور انسان کیا جانور بھی بھوکے مرنے لگتے ہیں۔ بارش کو اللہ کی رحمت سے تعبیر کیا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ زمین کے جس حصے میں گناہ بڑھ جائیں اور انسان اپنے ربّ سے بغاوت پر اُتر آئیں تو اللہ کی رحمت اس آبادی سے روٹھ جاتی ہے، بارشیں بند ہوجاتی ہیں اور لوگ پانی کے لیے تڑپنے لگتے ہیں۔ مسلمان آبادیوں میں جب ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو لوگ اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور کھلے میدان میں نماز استسقاادا کرتے ہیں۔ بچپن میں ہم نے دیکھا ہے کہ جب لوگ نماز استسقا ادا کرنے میدان میں جاتے تھے تو ان کی بغل میں چھتری بھی دبی ہوتی تھی کیوں کہ انہیں یقین ہوتا تھا کہ ان کی نماز ضرور قبول ہوگی اور جب وہ گھروں کو واپس ہوں گے تو بارش انہیں بھگو دے گی۔ ایسے میں چھتری ان کے کام آئے گی اور واقعی ایسا ہی ہوتا تھا۔ یہ سب ایمان کا کرشمہ تھا، اب ایمان کی جگہ بے یقینی نے لے لی ہے اس لیے نماز استسقا میں بھی وہ اثر نہیں رہا۔
پاکستان وہ ملک ہے جس میں ماضی کے حکمرانوں نے قلت آب کا مسئلہ پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن قدرت نے اس سرزمین کو بارشوں سے نواز کر ان کی ہر کوشش کو ناکام بنادیا ہے۔ اب کی دفعہ بھی فصلوں کو پانی کی کمی کا سامنا تھا کہ قدرت نے بروقت بارشیں برسا کر اس کمی کو پورا کردیا ہے۔ موسم سرما اس وقت آخری دموں پر ہے لیکن بارشیں ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ اس طرح سردی کا دورانیہ بڑھ گیا ہے اور گندم کی فصل پر اس کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اب کی دفعہ گندم کی پیداوار نہایت شاندار ہوگی اور کسانوں میں خوشحالی آئے گی۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی معیشت سے تعلق رکھتا ہے لیکن یہاں زراعت کو ترقی دینے پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ پاکستان میں ہر قسم کا اناج پیدا ہوتا ہے لیکن اس کی فی ایکڑ پیداوار کئی ملکوں کے مقابلے میں کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کئی قسم کی دالیں اور خوراک کا دیگر سامان بیرونی ملکوں سے درآمد کرتا ہے، حالاں کہ یہ ساری چیزیں پاکستان میں وافر مقدار میں پیدا ہوسکتی ہیں۔ بارشیں اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی ہیں اور اس کا انعام بھی۔ کیا ہم واقعی اس کے انعام کی قدر کررہے ہیں؟ ہم نے ابھی تک ایسے آبی ذخائر بھی تعمیر نہیں کیے جن میں کم از کم بارش کا پانی ہی ذخیرہ کیا جاسکے۔
بارشوں کی طرح برفباری بھی اللہ کی رحمت اور اس کا انعام ہے، بارشیں میدانی علاقوں میں ہوتی ہیں تو برفباری پہاڑوں اور پہاڑی علاقوں میں۔ برفباری سے زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوتی ہے اور پہاڑی چوٹیوں پر پڑی برف پگھلنے سے ندی نالے اور دریا رواں ہوتے ہیں۔ یہ موسم سرما کا خاص تحفہ ہے، لوگ برفباری سے لطف اندوز ہونے کے لیے پہاڑی علاقوں کا رُخ کرتے ہیں اور موسم سرما کی بُوقلمونی کا لطف اُٹھاتے ہیں۔ پاکستان میں اُن علاقوں کی کمی نہیں ہے جہاں برفباری میدانی علاقے کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی اور دعوت نظارہ دیتی ہے۔ مری، نتھیا گلی، سوات، کالام، مالم جبہ، گلگت بلتستان، اسکردو۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں برفباری کے دنوں میں سیاحوں کا رش لگ جاتا ہے، لوگ زمین پر پڑی ہوئی برف دیکھنے کے لیے بلکہ برفباری سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان علاقوں کا رُخ کرتے ہیں، جب برف باریک ذروں کی مانند آسمان سے گرتی ہے تو زمین پر موجود ہر چیز سفید ہوجاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پورے ماحول نے برف کی سفید چادر اوڑھ لی ہے۔ اگر آپ آسمان کے نیچے برفباری کا نظارہ کررہے ہیں تو دیکھتے ہی دیکھتے آپ بھی برف کے بن جاتے ہیں۔ برف آپ کے سر پر، آپ کے چہرے پر، آپ کے لباس پر جم جاتی ہے۔ تھوڑی دیر اسی حالت میں کھڑے رہیں تو برف تہہ بہ تہہ جمتی چلی جاتی ہے اور آپ کے لیے قدم اُٹھانا دشوار ہوجاتا ہے۔ برفباری کے موسم میں سب سے زیادہ رش مری میں ہوتا ہے کہ یہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہل اسٹیشن ہے۔ یہاں سرکاری اداروں اور محکموں کے بڑے بڑے ریسٹ ہاؤسز ہیں جن میں افسران اپنی فیملیز کے ساتھ آکر ٹھیرتے اور موسم کا لطف اُٹھاتے ہیں۔ ہماشما کے لیے ہوٹل اور چائے خانے ہیں جہاں سیاحوں کی کھال کھینچ لی جاتی ہے اور یہ بیچارے سب کچھ لٹا کر خالی جیب گھروں کو واپس جاتے ہیں۔ ہم 1975ء میں بسلسلہ ملازمت لاہور سے راولپنڈی منتقل ہوئے تو مہینے میں ایک آدھ بار مری کی سیر بھی معمولات میں شامل ہوگئی تھی۔ راولپنڈی سے مری ڈیڑھ دو گھنٹے کا آرام دہ سفر ہے، سارا دن مری میں گزارتے اور شام کو اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاتے۔ اُس زمانے میں مری کے دکاندار، ہوٹل اور ریستوران والے نہایت تواضع، خوش اخلاق اور ہمدرد لوگ ہوا کرتے تھے۔ وہ مہمانوں کی عزت کرتے اور نہایت اخلاق سے پیش آتے تھے لیکن اب تو زمانہ بدل گیا ہے مری میں لوٹ کھسوٹ اور کھینچا تانی کا ماحول طاری ہے، مری والے سیاحوں کو مہمان نہیں شکار سمجھنے لگے ہیں اور شکاری کی طرح انہیں دبوچتے ہیں۔
خیر ہم یہ کیا قصہ لے بیٹھے۔ ذکر تھا بارش اور برفباری کا۔ یہ دونوں اللہ کی رحمت اور اس کا انعام ہیں اور اب کی دفعہ قدرت نے بڑی فرخدلی سے ہمیں اس انعام سے نوازا ہے۔ کیا اس انعام پر ہم اللہ کا شکر ادا کریں گے یا بدستور ناشکرے بنے رہیں گے؟ شکر ادا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم بہ حیثیت قوم اللہ کی فرماں برداری اختیار کرلیں، اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام اور حلال چیزوں کو حلال جانیں۔ حرام چیزوں میں سود سرفہرست ہے جسے ہم چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔