گھر کی گواہی!

183

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت اپنے ابتدائی سات ماہ میں لگ بھگ چالیس کھرب روپے قرضے لے چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قرضوں میں چار فی صد اضافے کی اہم وجہ سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی ہے۔ اقتدار سے محروم سیاستدان کہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت پندرہ ارب روپے ہر روز قرض لے رہی ہے جسے ہم اپوزیشن کا پروپیگنڈا ہی سمجھتے رہے مگر اب اسٹیٹ بینک نے ان کے خیالات کی تصدیق کردی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما یہ کہتے نہیں تھکتے کہ آصف زرداری اور میاں نواز شریف نے ملک و قوم کو قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کیا کررہی ہے؟ ہر روز پندرہ ارب روپے قرض لے رہی ہے اگر یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا تو پانچ سال میں کتنا قرض لے گی۔ گویا! تحریک انصاف کی حکومت کا منشور بھی ملک و قوم کو قرضوں کے جال میں پھنسانا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور بے گھری کے سونامی میں ڈبونا ہے۔ عمران خان کے علم میں تو یہ بات بھی نہیں ہوگی کہ عوام چالیس روپے پاؤ ٹماٹر خریدنے پر مجبور ہیں۔
اقتصادی ماہرین کے تجزیے کے مطابق پاکستان کی معیشت سونامی کی زد میں ہے اور اس خدشے کا برملا اظہار کیا جارہا ہے کہ سرمایہ کاروں کی گریزیائی پاکستان کو پائی پائی کا محتاج کردے گی۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ بنی گالا کو ریگولرائز کیا جاسکتا ہے تو دیگر علاقوں کی عمارات کو بلڈوز کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا؟۔ کاش! کوئی جسٹس پاکستان ازخود نوٹس کے ذریعے بیت المال کو حکمرانوں کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے اپنے اختیارات بروئے کار لائے۔ دانش ور طبقہ یہ کہتے نہیں تھکتا کہ بچے ہمارا سرمایہ ہیں، ہمارا مستقبل ہیں۔ عمران خان کی حکومت بیت المال پر شیش ناگ بن کر بیٹھ گئی ہے، بہت سے غریب بچے جن کے تعلیمی اخراجات بیت المال سے ادا کیے جاتے تھے، وظائف بند ہونے سے ان کی تعلیم ادھوری رہ گئی ہے، میٹرک پاس کرنے والے غریب بچے کالج نہیں جاسکتے، بی اے کرنے والے یونیورسٹی نہیں جاسکتے، ایم اے کرنے والے ایم فل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر وزیراعظم کی قوم پروری کے گن تواتر سے گائے جارہے ہیں۔ ملک کی معیشت اور قوم کی بدحالی پر بھی خان صاحب کے تردد کا چرچاہے،
زمینی حقائق اور عمران کے اعمال و افعال کی بڑی ڈھٹائی سے چشم پوشی کی جارہی ہے۔ عمران خان نے بیرونی ملک میں مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کے حصول کے لیے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور فیصلہ ان کے حق میں آیا تھا۔ بیرونی ممالک میں رہائش پزیر پاکستانیوں نے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا۔ ان کے حق رائے دہی پر لگ بھگ دس کروڑ کا جھٹکا لگا۔ گویا بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کا ایک ووٹ پندرہ ہزار میں پڑا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس سے ملک و قوم کو کیا ملا، البتہ سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک بڑھ گیا۔ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جہاں کوئی پاکستانی نہیں سبھی قومیتوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان کی وفاداریاں مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہیں اور المیہ یہ بھی ہے کہ کوئی اس کے سدباب پر غور کرنے پر تیار نہیں۔ اس امر پر بھی کوئی غور نہیں کرتا کہ سیاست دان ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑ کر قومی خزانہ کیوں برباد کرتے ہیں، حالاں کہ ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنے والے سیاست دانوں کو الیکشن کے اخراجات خود برداشت کرنے چاہئیں۔