کرائے دار 

382

ہم دوستی نہیں کرتے عشق کرتے ہیں لیکن کرائے کے گھر سے بیزاری کی وجہ ہرگز یہ نہیں جو اس شعر میں بیان کی گئی ہے ؂
ہمارا عشق ظفر رہ گیا دھرے کا دھرا
کرائے دار اچانک مکاں چھوڑ گیا
راشد صاحب کی بات سے دل پر گھونسا سا لگا۔ سر راہ مل گئے تھے۔ ہم نے اپنا تعارف کروایا جس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ’’اخباری دنیا میں دھوم ہمارے قلم کی ہے‘‘۔ سنی ان سنی کرتے ہوئے بولے ’’آپ حنظلہ صاحب کے کرائے دار ہیں نا‘‘۔ گویا ہماری کوئی شناخت ہی نہیں۔ کوئی پہچان ہی نہیں۔ کرائے دار ہونا ہمارا واحد حوالہ ہے۔ کرائے دار ہونا اتنا ہلکا ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ بلکہ ہم خوشی محسوس کرتے تھے کہ اس حوالے ہی سے سہی چند عظیم شخصیات سے ہمارا تعلق تو ہے۔ بلی ماراں کی پیچیدہ دلیلوں جیسی گلیوں کا وہ مکیں بھی جسے یہ زعم تھا ’’ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے‘‘۔ کرایہ دار تھا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال بھی جاوید منزل میں کرائے پر رہتے تھے۔ جاوید منزل علامہ اقبال کی بیگم نے ان کے اصرار پر مرنے سے پہلے جاوید اقبال کے نام ہبہ کردی تھی اور علامہ بطور کرائے دار جاوید اقبال کو ہر ماہ کرایہ ادا کرتے تھے۔ رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادآبادی آٹھ نو سال کے تھے جب اپنے چچا کے ایک کرائے دار کی بیوی کا حسن ان کی آنکھوں میں سما گیا تھا۔
جب بھی اپنا ذاتی گھر بنانے کا سوچا بشیر بدر مانع آگئے۔ لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں۔ پھر خیال آیا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں میٹر ریڈر اپوزیشن لیڈر بن جاتے ہیں، ایک سینما سے ترقی کرکے آدمی صدر مملکت بن سکتا ہے۔ فائلوں کو پہیے لگا کر آدمی بستیوں کی بستیاں تعمیر کرتا چلا جاتا ہے۔ وہاں ایک گھر بنانا کیا مشکل ہے۔ بس ذرا اندر سے ٹوٹنا ہوگا۔ ایک ایسے کالم نگار جن کے اندر نے ٹوٹنے سے انکار کردیا تھا، انہوں نے اپنے کسی کالم میں وزیر اعظم کو چور لکھ دیا۔ تھانے میں طلبی ہوگئی۔ تھانیدار نے پوچھا ’’اوئے تونے ہمارے ملک کے وزیر اعظم کو چور لکھا ہے؟‘‘۔ کالم نگار نے بات بدلنے کے لیے کہا ’’جی! وہ تو میں نے دوسرے ملک کے وزیراعظم کو چور لکھا ہے‘‘۔ تھانیدار نے غصہ سے کہا ’’اوئے ہمیں بے وقوف سمجھتا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کس ملک کا وزیر اعظم چور ہے‘‘۔
وہ لوگ جنہیں باپ دادا سے گھر ورثے میں مل جاتے ہیں وہ اندازہ نہیں کرسکتے اپنا گھر بنانا کتنا دشوار کام ہے۔ 80گز اور 120 گزکا مکان تو درکنار دو تین کمرے کا فلیٹ خریدنا بھی کتنا مشکل بنادیا گیا ہے۔ اچھے خاصے عزت دار گھرانوں کی بچیوں کے رشتے محض کرایہ دار ہونے کی بنا پر انکار کردیے جاتے ہیں۔ عزیز واقارب کی نظر میں آپ ان کے ہم پلہ نہیں ہوتے۔ بار بار اسکول بدلنے سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ کرایہ پابندی سے دینے کے باوجود ہر ماہ مالک مکان کسی نہ کسی بات پر کرایہ دار کی عزت نفس مجروح کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔ اچانک مالک مکان کی کوئی گم نام اولاد جس کا اس نے کبھی تذکرہ بھی نہ کیا ہو کہیں سے برآمد ہوجاتی ہے اور اس کی وجہ سے مالک مکان دھمکی دے جاتا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر گھر خالی کردیجیے یا پھر کسی بچے یا بچی کی شادی کی وجہ سے مالک مکان کو فوری طور پر اس گھر کی ضرورت ہے جس میں آپ کرایہ دار ہیں۔ گیارہ ماہ گزرنے کے بعد چونکہ آپ کے معاہدے کی مدت ختم ہورہی ہے لہٰذا دوچار ماہ پہلے ہی مالک مکان آپ کو وارننگ دینا شروع کردیتا ہے کہ بندوبست کر رکھیے آپ کو فلاں تاریخ کو گھر خالی کرنا ہے۔ آپ گھر خالی کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو پہلے اہل محلہ آپ سے دریافت کرنا شروع کردیتے ہیں، پھر محلے کے شرفا بھیجے جاتے ہیں، آپ ان کے قابو میں بھی نہیں آتے تو مالک مکان کی طرف سے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ غنڈے اور بدمعاش آ آکر آپ کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے وزیراعظم عمران خان کو کنٹینر وزیراعظم قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان ابھی تک کنٹینر سے نیچے نہیں اترے۔ عمران خان کے دھرنے کا ذکر ہو اور جاوید ہاشمی کے بیانات حافظے میں نہ ابھریں ممکن نہیں۔ جاوید ہاشمی کے جس بیان کا ہم حوالہ دینے جارہے ہیں اس سے پہلے راحت اندوروی کا ایک شعر سن لیجیے:
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
جاوید ہاشمی نے انکشاف کیا تھا عمران خان نے دھرنے کے دوران جنرل طارق اور اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک کے ساتھ مل کر نواز شریف کی حکومت کوختم کرنے کے لیے جوڈیشل مارشل لا کا پروگرام بنایا تھا۔ اس بیان کے بعد مختلف فورموں پر جو بحث ومباحثہ شروع ہوا، اس کے نتیجے میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق فوج کی اس وقت کی قیادت جس میں جنرل کیانی کی باقیات شامل تھی وہ کامیاب نہیں ہوسکی کیونکہ نواز شریف نے گھر جانے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ ٹیک اوور کرنا ہے تو کرلو لیکن پھر ان کی ہمت نہیں ہوئی۔ اس کے بعد فیصلہ ہوا کہ کسی طریقے سے عدلیہ کو استعمال کیا جائے۔ عمران خان کو جسٹس ناصرالملک کے بارے میں یقین دلاکر دھرنے میں اتارا گیا۔ حالانکہ جسٹس ناصر الملک کے بارے میں ایسا قیاس کرنا بھی ممکن نہیں۔ جس رات امپائر کی انگلی اٹھنے کا کہا گیا تھا اس رات بارہ بجے ایک شخص کو نواز شریف کے پاس بھیجا گیا تھا کہ وہ اپنے جانے کا اعلان کریں۔ نواز شریف نے انہیں واپس بھیجتے ہوئے کہا تھاکہ جائیے کہہ دیجیے وزیر اعظم ہاؤس خالی ہے آنا چاہتے ہیں تو آجائیں۔ اس کے بعد وہ عناصر پیچھے ہٹ گئے۔
ان تمام تفصیلات سے ایسا ہی لگ رہا ہے جیسے مالک مکان کرایہ دار سے گھر خالی کرانے کی تگ ودو کررہا ہے۔ حالانکہ کرایہ دار پانچ سال کا معاہدے کرکے اور عوامی حمایت کی قیمت دے کر وزیر اعظم ہاؤس کا رہائشی بنتا ہے لیکن کچھ ہی دن بعد اس کا وجود مالک مکان کو کھلنے لگتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے ڈیڑھ دوسال میں ہر مرتبہ وزیراعظم ہاؤس خالی کرالیا گیا۔ یہی کیفیت نواز شریف کے ساتھ رہی۔ ایک مرتبہ صدر غلام اسحق کے ذریعے انہیں کرائے کے گھر سے نکا لا گیا۔ دوسری مرتبہ انہوں نے گھر خالی کرنے سے انکار کیا، تڑی لگائی تو زنداں میں بند کردیے گئے، معاملہ سوئے دار رواں تھا کہ تقدیر نے یاوری کی اور وہ بھٹو جیسے انجام سے بچ گئے۔ جناب آصف علی زرداری نے ایوان جمہوریت کا ایک حصہ اصل مالکان کے لیے خالی کردیا تھا اور امور خارجہ اور دفاع کے کمرے مالکان کے قبضے میں دے دیے تھے پھر بھی میمو گیٹ کی صورت انہیں مالک مکان کی دھمکیوں کا سامنا رہا۔ نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے انہوں نے بھی یہ دونوں کمرے مالکان ہی کے قبضے میں رہنے دیے ہیں لیکن پھر بھی انہیں ڈان لیکس جیسی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان دھمکیوں کے باوجود وہ اڑے رہے تو پھر عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے انہیں اس صفائی سے کرائے کے گھر سے نکالا گیا کہ وہ پوچھتے ہی رہ گئے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ آج کل مالک مکان نے انہیں متعدد مقدمات میں پھنسا کر اندر کرا رکھا ہے۔ رہے وزیراعظم عمران خان ابھی تک تو ان کے اور مالک مکان کے تعلقات مثالی ہیں۔ دونوں ایک ہی پیج پر ہیں لیکن دیکھیے وہ کب تک مالک مکان کی دست برد سے بچے رہتے ہیں۔
جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ثابت ہورہا ہے جو مستحکم حکومتیں دینے میں ناکام ہے۔ بھارت اور دیگر ممالک میں جہاں جمہوریت بہت مستحکم نظر آتی ہے وہاں بھی حکومتوں کے لیے دل جمعی سے اپنے منصوبوں پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ جمہوریت غربت اور دیگر عوامی مسائل کے حل میں ناکام نظر آتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت دنیا کی سب سے بڑی غربت ہے۔ رہے مغربی ممالک تو ان کی خوشحالی جمہوریت کی بنا پر نہیں دنیا بھر میں ان کے استعماری کردار کی وجہ سے ہے۔ انسانیت کے مسائل کا حل صرف اسلام کے پاس ہے۔