اور سرپرائز دے دیا گیا

264

پاکستان کی جوابی کارروائی۔ یہی زیبا تھا۔ یہی لازمی تھا۔ 26فروری 2019 رات کی تاریکی میں بھارت نے تین طرف سے طیارے پاکستان میں داخل کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایک طیارہ خیبر پختون خوا بالا کوٹ میں بم گراکر چلا گیا۔ 2017 کے وسط میں دنیا بھر میں بھارت کے کو لڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کا نظریہ سامنے آیا تھا۔ اس نظریے کے مطابق بھارت نے آٹھ فورسز تشکیل دی تھیں جنہوں نے آٹھ کمزور مقامات سے پاکستان پر حملہ کرکے پاکستان کو بے بس کرنا تھا۔ بھارت کی موجودہ کارروائی اسی کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کی ایک ڈری اور سہمی ہوئی شکل تھی۔ حالیہ حملے میں بھارت نے تین مقامات سے طیارے داخل کیے۔ یہ کمزور مقامات نہیں تھے۔ لیکن اس کے باوجود بھارتی طیارے سلامتی سے واپس چلے گئے۔ اس حملے کے بعد پاکستان کی حکومت اور فوج پر شدید دباؤ تھا۔ اس موقع پر اسمبلی کا مشترکہ اجلاس بلانے، دنیا بھر کے جنگی ماہرین، سفارت کاروں اور صحافیوں کو تباہ شدہ جگہ کا معائنہ کرانے اور سرپرائز دینے کی باتیں کی گئیں۔ لیکن یہ سب کچھ بھارتی حملے کا جواب نہیں تھا۔ اس بھارتی کارروائی کا فوری جواب ضروری تھا۔ کہا جاتا ہے جو گھونسا لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے ہی منہ پر مار لینا چاہیے۔ سو پاکستان کی طرف سے اس حملے کا جواب حملے کی صورت میں دیا گیا اور زیادہ شدت سے دیا گیا۔ اگلے دن 27فروری کی صبح پاکستانی فضائیہ نے کنٹرول لائن کے پار اہداف کو نشانہ بنایا۔ پاکستانی طیاروں کے پیچھے پاکستان کی حدود میں انڈین طیارے داخل ہوئے جنہیں پاکستانی فضائیہ نے مارگرایا اور پائلٹوں کو گرفتار کرلیا۔ یہی منصوبہ تھا، یہی ٹریپ تھا، یہی سرپرائز تھا جس کا انڈیا ادراک نہ کرسکا اور جال میں پھنس کر اپنے دو طیارے ہی نہیں ساکھ بھی گنوا بیٹھا۔ بھارت کی طرف سے بھی ایک پاکستانی طیارہ گرانے کا دعویٰ کیا گیا جس کا کوئی ثبوت وہ پیش نہیں کرسکا۔
1971ء میں بھارت نے پاکستان کے دوٹکڑے کردیے۔ پچاس برس ہونے کو آرہے ہیں۔ بھارت کو جواب دینا درکنار ہمارے پاس اس بدترین شکست کا بدلہ لینے کا تصور بھی موجود نہیں۔ بھارت نے سیاچن پر قبضہ کرلیا۔ ہم یہ کہہ کر مطمئن ہوگئے کہ سیاچن پر گھاس کی پتی بھی نہیں اُگتی۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو روزانہ کی بنیاد پر لاشیں دینا شروع کردیں۔ کشمیر کے بیٹے اور بیٹیاں بھارتی بندوقوں کے آگے اپنے وجود اور پیلٹ گنوں کے آگے اپنے چہرے لیے سامنے آگئیں۔ اہل کشمیر کسی آزاد ملک کے لیے نہیں پاکستان میں شامل ہونے کے لیے 1988ء سے بھارتی درندوں کا سامنا کررہے ہیں۔ اہل کشمیر کا ساتھ دینے کے بجائے ہم نے انہیں مارنے کے لیے بھارت کو ہر طرح کی سہولت فراہم کی۔ کنٹرول لائن پر بھارت نے آہنی باڑ لگانا چاہی ہم نے لگانے دی۔ بھارت نے مجاہدین کے جوابی حملوں کو دہشت گردی کہا ہم نے تسلیم کرلیا۔ بھارت سے کہا آپ ثبوت دیں ہم کارروائی کریں گے۔ بھارت کے ثبوت مہیا کیے بغیر ہی ہم نے کشمیری مجاہد تنظیموں پر پابندیاں لگادیں۔ بھارتی افواج کے ظلم کے ردعمل میں ہونے والی ہر کارروائی کی ہم نے خوب بڑھ چڑھ کر مذمت کی۔ یہ اس حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ نریندر مودی جیسا بھیڑیا شیر بنتا گیا اور اس نے اپنے آپ کو امریکا باور کرنا شروع کردیا۔ اس نے یہ سمجھ لیا جس طرح ہم امریکی ڈرونز کو برداشت کرتے رہے۔ امریکی ہیلی کاپٹروں کی اسامہ بن لادن کو لے جانے والی کارروائی پی گئے۔ انڈیا کی کارروائی بھی ایسے ہی برداشت کرلیں گے۔ اس کارروائی کو برداشت کرنے کی صورت میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کے پاس اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہ رہتا۔ دفاعی حکمت عملی کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ قوم اب مزید دفاعی حکمت عملی کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔
دفاعی حکمت عملی ایک وقتی اور عارضی بندوبست ہوتا ہے۔ دشمن کے مقابل اپنے وجود کو برقرار رکھنے کا مستقل انتظام نہیں ہوتا۔ سر باسل ہنری لڈل ہارٹ دفاع کو ایک ’’رکا ہوا حملہ Attack Halted‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس کے بعد جب تک حملہ نہ کیا جائے کامیابی ممکن نہیں۔ جب تک کوئی قوم جارحانہ عزائم نہیں رکھتی اس وقت تک کسی قابل ذکر کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اولین جنگیں دفاعی تھیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ مدینہ میں اسلام کے مخصوص مفہوم اور تصورات کو زندگی کا ضابطہ حیات اور مرکزبنا دینے کے ساتھ ساتھ آپؐ ان تیاریوں میں بھی مصروف تھے جن کے ذریعے آپ کفر کی مادی طاقت کو مادی طاقت کے ذریعے مٹاسکیں۔ یوں آپؐ نے پہل کرتے ہوئے جہاد کی قوت سے ان رکاوٹوں کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اسلام کی دعوت کو مدینہ سے باہر پھیلانے کے لیے آپؐ نے ایک فوج تیار کی اور ازخود ایسے اقدامات کیے جن سے یہودیوں اور منافقین پر رعب طاری ہوا اور بڑی جنگوں کا ماحول پیدا ہوا۔ جزیرہ نما عرب میں گشت اور فوجی مہمات کی روانگی کے ذریعے آپ نے پہل کرتے ہوئے قریش کو چیلنج کیا جس کا نتیجہ غزوہ بدر کی صورت میں رونما ہوا۔ جو مسلمانوں کی فتح اور قوت میں اضافے کا باعث بنا۔ غزوہ خندق میں آپؐ نے دفاعی حکمت عملی اپنائی لیکن دفاع کو مستقل آپشن قرار دینے کے بجائے آپؐ نے اسے ایک رکا ہوا حملہ باور کیا اور مکہ پر حملہ کرکے اسے فتح میں تبدیل کردیا۔ جب رومی لشکر اسلامی سرحدوں پر جمع ہونا شروع ہوا تو آپؐ نے دفاع پر انحصار نہیں کیا بلکہ پورے عرب کو قابل حرب ٹروپس سے خالی کرکے تیس ہزار کا لشکر ’’جیش العسرہ‘‘ لے کر تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ مسلمانوں کی اس پیش قدمی اور جارحانہ کارروائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ رومیوں نے تبوک سے پیچھے ہٹ کرشام میں محصور ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ آپؐ نے ثابت کردیا کہ اسلام کا تصور جنگ دفاعی نہیں جارحانہ ہے۔ مسلمانوں نے مدینہ تک محدود رہنے کے بجائے باہر کی طرف دیکھا اور پوری دنیا پر چھا گئے۔ مغربی اقوام نے یہ جارحانہ حکمت عملی مسلمانوں سے مستعار لے کر دنیا بھر میں کامیابیاں حاصل کیں۔ برطانیہ محض چار جزیروں کا چھوٹا سا ملک تھا لیکن اس پالیسی پر عمل کرکے اس نے صدہا سال دنیا کو اپنا غلام بنائے رکھا۔ جرمنی نے بیسویں صدی میں باہر کی طرف دیکھا اور اکیس برس کی قلیل مدت میں دنیا کی دو بڑی سلطنتوں کو روند ڈالا۔ اسرائیل پہلے دن سے اپنی سرحدوں سے باہر دیکھ رہا ہے۔ آج تمام عرب ممالک اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ چار چھوٹی بڑی جنگیں لڑیں لیکن کوئی فائدہ نہیں اٹھایا سوائے نقصان کے۔ اندروں بیں ہونے اور دفاعی حکمت عملی کی ہم نے ایک قیمت چکائی ہے لیکن اب اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں جارحانہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
بھارتی حملے نے پاکستان کو ایک موقع مہیا کیا ہے کہ دنیا کو بتادیا جائے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ایک متنازع علاقہ ہے جسے بالآخر پاکستان کا حصہ بننا ہے۔ دنیا کو بتادیا جائے کہ اہل کشمیر دہشت گردی کا ارتکاب نہیں کررہے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ فی الواقع یہ وہ اصل سرپرائز ہوگا جس کا قوم انتظار کررہی ہے۔ پلوامہ حملہ دہشت گردی کی کارروائی نہیں مجاہدین کی کامیاب کارروائی تھا۔ یہ موقع ہے دنیا کے سامنے بھارت کا اصل چہرہ پیش کیا جائے۔ جنونی، انتہا پسند اور دہشت گرد بھارت کا۔ اس کے لیے ایک دوسرے محاذ پر ایک اور جنگ لڑنا ہوگی۔ سفارتی محاذ پر جو بھارت کے مقابل ہماری پسپائی کا ایک الگ اور بڑا میدان ہے۔ تیس برس سے بھارت ہر عالمی فورم پر پاکستان کو دہشت گرد ملک ثابت کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے جس کے جواب میں ہمارارویہ معذرت خواہانہ رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کو بتادیا جائے کہ جارح بھارت ہے دہشت گرد بھارت کا وزیراعظم نریندر مودی ہے جس نے الیکشن میں اپنی کامیابی کے لیے پورے خطے کو جنگ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یہ بھارتی جنون کو ٹھکانے لگانے کا وقت ہے۔ ہمیں بھارت کو بتانا ہوگا کہ اگر تم نے جنگ شروع کی تواس کا اختتام تمہارے ہاتھ میں نہیں ہوگا۔ اس کا اختتام ہم کریں گے۔ آخری جنگ کا اختتام۔